نائن الیون۔۔۔ آپ اپنی اداؤں پر ذرا غور کیجیۓ!

پیر 13 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

نائن الیون کے سانحہ پر بیس سال مکمل ہونے پر امریکی صدر جوزف بائیڈن نے میموریل تقریبات میں شرکت کی اور سانحے میں ھلاک ھونے افراد کو خراج تحسین پیش کیا، ان کے ساتھ ڈیموکریٹک رہنما اور سابق صدور باراک اوباما اور بل کلنٹن بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تقریب میں آئے، دوسری طرف کمیلا ہیرس، سابق صدر بش جونیئر بھی تقریبات میں شریک ہوئے، البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے، ایک تقریب میں بائیڈن کی جلد بازی پر خوب تنقید کی، بیس سال دنیا ادھر کی ادھر ھو گئی نہ امریکہ نے سبق سیکھا اور نہ ہی مسلم ممالک کی سوچ میں کوئی بڑی تبدیلی آئی، امریکہ نے اپنے چار سے زائد افراد کی ھلاکت پر اربوں انسانوں کو ھلاکت میں ڈال دیا، اس کا سوگ کون منائے گا؟ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ھم نے اس وقت بھی کہا تھا اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سانحہ میں ھمارا کوئی کردار نہیں ہے، اور نہ ہی اس طرح کے کوئی مقاصد ہیں، ایک بش نے عراق میں بغیر کسی وجہ کے جنگ چھیڑی، دوسرے نے پھر صلیبی جنگوں کا واویلا کیا، عراق میں بائیولوجیکل ھتھیار ہیں، ان سے دنیا کو بچانا ہے، نہیں ماننا تھا، نہیں مانے اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا، خود کہنے پر مجبور ہوئے کہ کوئی تھی ایسے ھتھیار نہیں تھے، یہی حال افغانستان کے ساتھ کیا، کیا واحد مقصد انتشار تو نہیں ھے؟45 ٹریلین ڈالر کے اخراجات، ایک لاکھ چھیاسی ھزار انسانوں کی ھلاکت، معاشرت، معیشت اور امن کو تہ وبالا کر دیا گیا، مگر آج بھی کہا جا رہا ہے کہ القاعدہ اور داعش موجود ہے، امریکہ نے اقتدار طالبان سے چھینا تھا اور اشرف غنی کو لوٹا کر واپس چلے گئے، آخری جہاز کی روانگی کا منظر خود کپتان کروبی نے بیان کیے کہ کابل ائیر پورٹ کسی زمبی فلم کا منظر پیش کر رہا تھا، کیا یہ انسانیت کے ساتھ انصاف ھے؟یا ایڈونچر جو کل بھی کرنا تھا اور آج بھی کہیں اور کرنا ہے۔

(جاری ہے)

افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلم ورلڈ اپنی اداؤں پر غور نہیں کرتی، آپ نے غور کیا ھوگا کہ جہاں بھی ایسے ایڈونچر کیے گئے، ان میں مطلق العنان اور ظالمانہ حکومتیں قائم تھیں، جمہوریت، عوامی اختیار اور انصاف جیسی چیزیں نایاب تھیں یہ وہ پہلی وجہ ہے جو بڑی طاقتوں کے ایڈونچر میں مددگار ثابت ہوتی ہے،مسلم حکمران جمہوریت اور عوامی اختیار و انصاف سے محروم ہیں، دوسرا بڑا حصہ "ھماری جہالت" کا ھے, تعلیم اور جدت پسندی سے ھمیں نفرت ھے، ھم اسلامی فلاحی تصور سے عاری ہیں اور ریاست، حکومت اور مذہب کی درست تشریح نہیں کر سکے، جس کی وجہ سے آج تک وہیں کھڑے ہیں، امریکہ اور اس کے اتحادی ایک اور انتہا پہ کھڑے ہیں اور ھم عوام سے گھبراتے ہیں، خواہشات اور خواب میں جیتے ہیں، کوئی معاشرے انصاف اور اعتدال کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، یہ دونوں چیزیں مسلم معاشرے میں ناپید ہیں، ریاست مدینہ میں یہ دو چیزیں بنیاد تھیں، آج عراق، افغانستان، شام، سوڈان، انڈونیشیا اور لیبیا جن مسائل سے گزر رہے ہیں، ان کے پیچھے یہی وہ عوامل ہیں جو انسانیت کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں، جس جس ملک میں عوامی اختیار کا ذرا بھی حصہ موجود ہے وہاں طاقتور ممالک کو ایڈونچر کرنے کا موقع نہیں ملا، افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے سب بڑا نقصان اٹھایا اور آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی افغانستان اور دیگر مسلم ممالک وہیں کھڑے محض اس بات پر خوش ہیں کہ ھم نے دو سپر پاورز کو شکست دے دی، کیا یہ سوال آپ سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کی ھلاکت اور کروڑوں کی زندگی چھیننے کا آپ پر کتنا بوجھ ھے؟ وہ تو سرد جنگ کہیں اور گرم کرتے ہیں اور فائدہ کہیں اور سے حاصل کرتے ہیں، کیا ان باتوں پر غور کیا جائے گا؟
افغان طالبان نے کابینہ کا اعلان کیا ھوا ھے جس میں"طالبان فائیو" بھی شامل ہیں جنہیں گوانتانامو بے میں بارہ سال تک کی سزا کاٹی کیا یہ امریکی حکومت کا تضاد نہیں ہے؟ آج بیس سال پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کسی کے ھاتھ کچھ نہیں آیا۔

ایک اندازے کے مطابق 7 کھرب ڈالر اسلحہ سازی کمپنیوں نے اضافی کمائی کی ، افغانستان میں اب دوبارہ طالبان حکومت بن گئی، امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس، اور دیگر بڑے ممالک ترقی میں آگے بڑھ گئے، مگر ھم پچاس سال اور پیچھے چلے گئے، ھمارے حصے میں جہازوں سے لٹک کر امریکہ جانے کی خواہش ھے، وہ تو جاتے ہوئے جہاز، اسلحہ، الیکٹرونکس کا سامان اور آلات تباہ کر، جلا کر چلے گئے، انہیں کسی قوم سے کیا ھمدردی ھو سکتی ھے، وہ نہ پوچھ کر آئے تھے اور نہ پوچھ کر واپس گئے، اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا، ھم کہاں کھڑے ہیں؟ امن، ترقی اور خوشحالی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کیا یہ ھمارا مستقبل ھو گا،؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :