اقبال کی ہمہ گیریت ،ارتقا اور مقصد انسان!

پیر 8 نومبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

اے ھمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن تیرا
کچھ تو بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا
ھاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو،
یہ علامہ اقبال کی پہلی نظم " ھمالہ"  کے اشعار ہیں جواس وقت کے مشہور ادبی جریدے مخزن میں شائع ھوئی، روایتی رومان اور رنگ شاعری نمایاں تھا، لیکن کیا اقبال صرف شاعر تھے،؟ اس سوال کا جواب اقبال کی ارتقاء فکر سے لگایا جا سکتا ہے،اگرچہ انہیں خود بھی صرف شاعر کہلانا پسند نہیں تھا، سیاست، وکالت اور ملازمت کا ہر ھنر آزمایا لیکن اقبال جس مقصد کے لیے آیا تھا وہ مقصد حاصل کر کے گیا، اگرچہ ادب کے نقادوں نے ان کی شاعری کے چار ادوار تشکیل دے کر تجزیہ کیا ہے جن میں آغاز سے 1905ء تک کی شاعری کا پہلا دور، 1905ء سے 1908ء تک دوسرا دور پھر 1908،ء سے 1915 تک کا تیسرا دور اور 1915 سے 1938ء کا چوتھا دور شامل ہے،  اقبال کے ان تمام ادوار کو دیکھا جائے تو فکری ارتقاء کا ایک مسلسل عمل ملے گا، حس جمالیات انسان کی سرشت میں شامل ہے، مگر اس کو فطرت کے رنگ میں رنگ کر دیکھنا ،جستجو ھے علامہ اقبال نے اس جستجو کو روایتی رنگ شاعری سے ہٹ کر شروع کیا، نظم "ھمالہ" اس کی عکاسی کرتی ہے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب شاعری ایک خاص روایت سے آگے نہیں بڑھتی تھی، رنگ و رخسار، قلبی واردت، قنوطیت اور کہیں کہیں غم روزگار اور غم جاناں تک ہی محدود خیالات تھے، اگرچہ کہ تخیل اور فنی عروج کمال ھوتا مگر فکری ارتقاء کے دروازے بند تھے، مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید احمد خان کی تحریک سے متاثر ہو کر جب قومی اور مقصدی شاعری کا آغاز کیا تو ہر طرف سے آوازیں بلند ھوئیں، شعراء غالب، میر تقی میر، اور سودا کے رنگ سے نکلنا ادبی اور فنی بغاوت سمجھتے تھے، اقبال میں بھی فنی اعتبار سے وہی رنگ نمایاں تھا تاہم فکری ارتقاء کی جولانیاں اقبال کو محدود نہ کر سکیں، روایتی شاعری سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے شاعری سے ہی کنارا کشی کو ترجیح دی مگر اپنے محبوب استاد پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر شاعری کا ایک نیا آغاز  کیا،جس میں انہوں نے فکری ارتقاء کا نیا سفر شروع کیا اور"آٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں" کا بیڑا اٹھایا، اقبال 1915ء سے 1938ء تک ایک موج رواں کی طرح خودی سے بے خودی کی طرف مسلسل تغیر و تبدل کے ساتھ چلتا رہا،
اسرار خودی ھو یا رموز بیخودی، بانگ درا کی آواز ھو یا بال جبریل، ضرب کلیم، زبور عجم اور ارمغان حجاز سے پیام مشرق تک کا سفر اقبال عمل پیہم، یقین محکم سے پیچھے نہیں ہٹے، یہی وہ مقصد حیات ھے جس کا درس قدرت نے انسان کو دیا ھے، انسان اللہ کی وہ واحد تخلیق ھے جس نے مسلسل سفر، ارتقاء اور یقین  محکم کے ساتھ تسخیر کائنات کی منزل حاصل کرنی ہے، اقبال نے کہا ہے کہ،
تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پہ عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ھوجا، خدا کا ترجماں ہو جا،
اس کائنات میں اپنی ذات کی پہچان سے ہی انسان کی بلندی کا سفر شروع ہوتا ہے، جب وہ خود کو پہچان لیتا ہے تو خدا کو پہچان لے گا، اس کا ترجمان بن کر اپنے سفر پر روانہ ھو گا، اقبال نے تعمیر شخصیت کے لیے خودی کا راز بتایا کہ جس کا اعلان قرآن نے کیا، فطرت روز کرتی ہے، انسانی جمود دراصل سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے، جس کو توڑنے کے لیے اقبال نے مقصد اور جدوجہد کا وہ راستہ دیا جو منزل کی طرف لے جاتا ہے، یہ سفر اتنا بڑا ھے کہ،
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ کہیں یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ؟
اور یہ راز اقبال نے انسان کو بتایا کہ وہ خود کو پہچان سکے، اپنے اعلیٰ مقاصد سے آگاہی حاصل ھو،  جہاں اس نے تمام انسانوں کی بات کی وہاں مسلمانوں کو بھی اپنی زمہ داریوں سے آگاہ کیا کہ آپ کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں،
 پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے،
علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے بلکہ مفکر، مدبر، مصلح، حکیم اور نظریہ پاکستان کے بانی بھی تھے مگر ان کی فکر کا اہم پہلو اگر عشقِ مصطفوی سے شروع ھوتا ھے تو وہ فکری اندھیروں کو مسلسل عمل، ارتقا اور استقامت سے روشنی میں بدل دیتا ہے، آپ سادہ سے الفاظ میں اقبال کو سمجھیں تو اقبال کی فکر جن چیزوں کے گرد گھومتی ہے اس میں نیت، مسلسل جدوجہد، استقامت اور منزل کا یقین نمایاں ہے، آپ تحریک پاکستان کے تناظر میں دیکھیں  اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تصور پیش کیا، جس پر چل کر ایک منزل تک رسائی ممکن ہو ئی، مگر کیا اقبال یہیں تک محدود ہے ، جس کا جواب یہ ہے کہ اقبال اپنے تصور قومیت میں صرف وطن کو منزل نہیں سمجھتا بلکہ ارتقا اور تسلسل کو انسان کا اصل مقصد قرار دیتا ہے، ابھی کائنات ناتمام ہے شاید، کہ آرہی ہے صدائے کن فیکوں،  یا "عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں" جیسے بلند تخیل، کو فکری ارتقاء کا عمل بنایا،  اقبال ایک ھمہ گیر فکر کے مالک تھے، اگر وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ،
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
کل کا اقبال ھو یا آج کا اقبال، ارتقاء بھی چل رہا ہے، جدوجہد بھی جاری ہے، اور منزل کا یقین بھی پختہ ھے، اقبال ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس میں رجائیت یعنی امید، مسلسل عمل اور منزل کا یقین انسان کو مایوسی، اور جمود سے نکالتا ہے، کیونکہ سکوت ھو یا سکون سائنس بھی اسے موت کہتی ہے، فطرت بھی مردہ کہے گی اور اقبال تو فطرت کا ترجمان ہے وہ بہت زیادہ صوفی ھو بھی جائے تو یہ کہہ سکتا ھے کہ
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں،
اقبال دراصل بند آنکھ کے خوابوں کا ترجمان نہیں ہے وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا اور اپنے مسلسل سفر سے اس کو حاصل کرتا ہے، اقبال نے سفر یورپ میں اپنی علمی، مشاہداتی اور پختہ یقینی کا سفر مکمل کیا، مگر ارتقائے فکر کا دروازہ بند نہیں کیا اس لئے اقبال کی سوچ اور عمل میں ھمہ گیریت ھے، فکر و فن کی پختگی نے اقبال کو امر کر دیا
زیارت گاہ عام  ھے اہل عزم  و ہمت کے لیے لحد میری،  کیونکہ اقبال نے راز الوندی یعنی انسانی معراج کا راز بتا دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :