
اب بتاوٴ قیدیوں سی زندگی کیسی لگی ؟؟
اتوار 3 مئی 2020

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہم اِس اہانت آمیز رویے پر بھرپور احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اب اگر ماسی مصیبتے گلی گلی شور مچاتی پھریں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ تو وہ حق بجانب ہوں گی۔ ویسے خانِ اعظم کو جلد احساس ہو جائے گا کہ ماسی مصیبتے میڈیا اور اپوزیشن کے لیے ”کورونا وائرس“ سے کم خطرناک نہ تھیں۔ اِسی لیے تو اُن کی باتوں کا جواب دینے کی کسی میں ہمت نہیں تھی کیونکہ ”اپنی عزت اپنے ہَتھ“۔ماسی مصیبتے کی اہمیت تو یوں بھی اجاگر ہوتی ہے کہ اب خانِ اعظم کو ایک خاتون کی جگہ 2 مردوں کا سہارا لینا پڑا۔ کہے دیتے ہیں کہ اب وزارتِ اطلاعات کا قلمدان جن 2 اصحاب کے سپرد کیا گیا ہے، اُن میں ماسی مصیبتے کا سا ”کھڑاک“ مفقود۔ گنڈاسا لے کر کشتوں کے پُشتے لگانے والی ماسی مصیبتے کی گدی سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے حصّے آئی اور ”وَڈی“ وزارت پر سینیٹر شبلی فراز براجمان ہوئے۔ شبلی فراز عظیم شاعر احمد فراز کے فرزند ہیں، وہی احمد فراز جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک عہد وزارتِ اطلاعات میں”اَفسری“ کرتے گزارا۔ اِس لیے شبلی فراز کو وزارتِ اطلاعات سمجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس وزارت کے اسرار ورموز تواُن کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ مشیرِ اطلاعات عاصم سلیم باجوہ 4 سال تک آئی ایس پی آر کے ڈی جی رہے۔ اُنہیں بھی کسی کی گائیڈ لائین کی ضرورت نہیں کہ تجربہ اُن کا بھی مستند۔ دونوں ہی مرنجاں مرنج، دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے اور افہام وتفہیم کی فضاوٴں میں زندہ رہنے والے لیکن یہ صلاحیتیں خانِ اعظم کو قطعاََ پسند نہیں۔ اُنہیں تو ”کھڑاک“ کرنے والے لوگ ہی پسند ہیں جیسے شیخ رشید، فواد چودھری،فیصل واوڈا، مراد سعید، فیاض چوہان اور اُن جیسے دوسرے لوگ۔ خانِ اعظم کے اِس یوٹرن پر ہم بھی انگشت بدنداں کہ کہاں ہر کھڑاک کرنے والا اُن کا مطلوب ومقصود اور محبوب اور کہاں دھیمے سُروں میں بات کرنے والے شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ۔ جس کی محبوبہ ”سونامی“ ہو وہ گنگناتی ندیوں سے بھلا کیسے نباہ کر سکتا ہے۔ اِس لیے ہمیں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔ شبلی فراز کی تو خیر کوئی بات نہیں لیکن عاصم سلیم باجوہ کی چھٹی کروانا شاید خانِ اعظم کے بَس کا روگ نہ ہو کہ اقتدار کے ”اصلی تے وَڈے ایوان“ کبھی یہ پسند نہیں کریں گے۔ ویسے بھی آجکل کورونا کے وار جاری ہیں اِس لیے فی الحال تو حکمرانوں کو اپنا ہوش نہیں کہ کورونا نے سبھی کے ہوش اُڑا رکھے ہیں۔ ایک ننھے مُنے جرثومے نے اشرف المخلوقات کو اُس کی اوقات یاد دلا دی۔ مسجدیں بند، چرچ بند، بُت خانے بند۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی سرگرمیاں بند۔ فضائی رابطے مفقود اور نقل وحرکت پر پابندی۔ ایٹم بم بنانے، اسلحے کے انبار لگانے اور ستاروں پہ کمندیں ڈالنے والے اِس جرثومے سے چھٹکارا پانے کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھے مگر بے سود۔ اشرافیہ یوں اپنے گھروں میں گھُسی بیٹھی ہے جیسے آزاد پنچھیوں کو کسی نے پنجروں میں قید کر دیا ہو۔ وہ پھڑپھڑاتے ضرور ہیں لیکن رہائی نہیں پا سکتے۔اشرافیہ کی بے بسی دیکھ کر جانے کیوں یاد آیا
اب بتاوٴ قیدیوں سی زندگی کیسی لگی
اُدھر حکمرانوں کا یہ حال کہ منزل کا نشاں نہیں، سمت کا تعین نہیں۔ خانِ اعظم پہلے دن سے ہی لاک ڈاوٴن کے خلاف ۔ اُنہوں نے فرمایا ”حکمران اشرافیہ نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ کیا کہ ملک میں لاک ڈاوٴن کرنا ہے۔ لاک ڈاوٴن کا فیصلہ امیروں نے کیا، غریب اور مزدور آدمی کا سوچا ہی نہیں۔ اگر کورونا وبا صرف غریب شکار ہوتے تو کبھی لاک ڈاوٴن کرنے میں اتنی تیزی نہ دکھائی جاتی“۔ اگر ہماری یادداشت کمزور نہیں تو غالباََ ملک کے وزیرِاعظم خانِ اعظم ہی ہیں اور ”حکمران اشرافیہ“ بھی وہی۔ کیا وہ اتنے بے بس اور لاچار ہیں کہ اُمراء مَن مانی کرتے اور وہ مُنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں؟۔ چلیں مان لیا کہ صوبہ سندھ کی حکومت مَن مانی کرتی ہے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تو اُن کی اپنی حکومت ہے اور صوبہ بلوچستان اُن کے زیرِاثر۔ کیا یہ صوبے بھی من مانی کرتے ہیں؟۔ چلیں صوبوں کو چھوڑیں، کیا وفاق بھی اُن کے زیرِاثر نہیں؟۔ اسلام آباد میں بھی ویسا ہی لاک ڈاوٴن ہے جیسا باقی صوبوں میں۔ پھر خانِ اعظم کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟۔ خانِ اعظم نے یہ بھی فرمایا ”نریندر مودی اتنا ڈرپوک نکلا کہ کورونا کی وجہ سے پورا ملک بند کر دیا“۔ دست بستہ عرض ہے کہ بہادری اور بیوقوفی میں فرق ہوتا ہے ۔ وحشی درندہ نریندر مودی بیوقوف نہیں، اِسی لیے اُس نے کہا کہ پہلے قوم کو بچا لیں، معیشت کی باری بعد میں آئے گی، اگر قوم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ کیا پوری دنیا ڈرپوک ہے جو مکمل لاک ڈاوٴن کیے بیٹھی ہے؟۔ یورپ اور امریکہ کی مثال سب کے سامنے جن کے حکمرانوں نے ابتداء میں کورونا وائرس کو بَس ”ایویں ای“ سمجھا اور جب اِس کی تباہ کاریوں نے سب کچھ اُتھل پُتھل کر دیا تو سر پکڑ کر بیٹھ رہے۔ چین عقلمند نکلاجس نے ابتداء ہی میں لاک ڈاوٴن کیا، حفاظتی اقدامات میں تیزی دکھائی اور اِس وائرس کو نکال باہر کیا۔ یہ بجا کہ فی الحال پاکستان میں کورونا کی تباہ کاریاں کم ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ اِس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کورونا وائرس ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے
اگر ہم بھی یورپ اور امریکہ کی طرح ایک لاکھ ٹیسٹ روزانہ کرنا شروع کر دیں تو صورتِ حال یکسر مختلف ہو جائے گی۔ اِس لیے مکمل لاک ڈاوٴن میں ہی عافیت ہے کہ ”جان ہے تو جہان ہے“۔ ویسے بھی اِس قوم میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہو، یہ مخیر بہت ،ہمیں یقین کہ پاکستان میں کوئی بھوک سے نہیں مرے گا۔
آخر میں مولانا طارق جمیل کی خدمت میں عقیدت مندانہ عرض کہ اُن کی وجاہتِ علمی کے ہم بھی اسیر۔ فنِ تقریر میں بھی وہ فی زمانہ یکتا۔ سوال مگر یہ کہ اُنہوں نے ایسی باتیں ہی کیوں کیں جن پر اُنہیں بعد میں غیرمشروط معافی مانگنی پڑی۔ کورونا وائرس کے سلسلے میں فنڈریزنگ میراتھون میں دعائیہ کلمات کہتے ہوئے اُنہوں نے نہ صرف یہ کہا کہ میڈیا پر جھوٹ بِکتاہے بلکہ یہ کہہ کر سیاسی گٹر میں بھی پتھر پھینک دیا کہ عمران خاں واحد دیانتدار آدمی ہے جسے اُجڑا ہوا چمن ملا۔ گٹر کے چھینٹے اُن کے اپنے دامن کو ہی داغدار کر گئے۔ تاریخِ اسلام کے صفحات گواہ کہ علمائے حق نے ہمیشہ سرکار، دربار سے فاصلہ رکھنے کو ہی بہتر جانا کہ اُن کی اپنی ایک دنیا جس کے وہ شاہ، بادشاہ، شہنشاہ۔ جو سیاسی گٹر میں اُترا، اپنا دامن نہ بچا سکا۔ مولانا طاہرالقادری کی مثال سب کے سامنے۔ فنِ تقریر کے وہ بھی اُستاد۔ گھنٹوں بلکہ پہروں سنتے جائیے سَر دھنتے جائیے۔ حلقہٴ احباب وسیع، مریدین لا تعداد۔ جب سیاسی گٹر میں اُترے تو آلودہ دامانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ چاروں طرف سے طنزوتعریض کے تیروں کی ایسی برسات کہ اللہ کی پناہ۔ بالآخر اُنہوں نے سیاست سے علیحدگی میں ہی عافیت جانی۔ اگر مولانا طارق جمیل کورونا وائرس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے صرف دعاوٴں تک ہی محدود رہتے تو بہتر تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.