"بنی اسرائیل" سے موجودہ ملک "اسرائیل" تک‎

بدھ 12 مئی 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

بنی اسرائیل کی سرکشی اور نافرمانی کی انتہا کا ایک مظہر ان کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا انکار اور ان کو مصلوب کرنا تھا۔گزشہ کالم میں بنی اسرائیل کے دوسرے زوال اور یروشلم کا رومیوں کے ہاتھوں مفتوح ہونے کا ذکر کیا تھا۔
ان کے ہاتھوں سے طاقت واقتدار نکل گیا۔یہودی مذہب کے پیروکار حکمرانوں نے جب عیسائیت قبول کی تو یہودیوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔

ایک اہم بات کا بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہودی تو فلسطین میں رہتے تھے مگر ان کی ایک بڑی تعداد مدینہ اور خیبر میں کیسے آگئی۔دراصل تورات میں آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ذکر بھی تھا اور یہ نشانی بھی مذکور تھی کہ آخری نبی کا مسکن کھجوروں والا شہر ہوگا لہذا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور استقبال کیلئے مدینہ اور خیبر میں آکر آباد ہو گئے۔

(جاری ہے)

مگر جب حضور کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں ہوئی تو نسلی تفاخر اور تعصب کی وجہ سے یہودیوں کی کثیر تعداد نے آپ کی نبوت کا انکار کر دیا حالانکہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ آپ ہی وہ آخری نبی ہیں جن کا ذکر تورات،زبور اور انجیل میں کیا گیا ہے۔ نبوت جیسی فضیلت کا چھن کر بنی اسماعیل کو مل جانا بنی اسرائیل سے برداشت نہ ہوا اور یہی ان کی اسلام دشمنی کی اصل اور بنیادی وجہ ہے۔

انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی پہلے انبیاء کی طرح جھٹلا دیا اور آپ کو خیبر میں زہر دے کر اسی طرح قتل کرنا چاہا جسطرح یہ گزشتہ انبیاء کو قتل کرتے آئے تھے۔مگر اللہ نے اپنے نبی اور دین کو ان کے شر اور فساد سے بچا لیا۔
خیبر کی ذلت آمیز شکست کو یہ آج بھی نہیں بھولے اور ان کی اسلام دشمنی میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔خیبر کی شکست کے بعد یہ منتشر ہوگئے اور ان کی اجتماعی طاقت بے وقعت ہو کر رہ گئی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں635ء میں یروشلم سمیت یہ سارا علاقہ مسلمانوں نےفتح کر لیا۔


اگلے 1300 سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا اور پہلے چھ سو سال تک اموی، عباسی اور صلیبی جنگجو اس پر باری باری قابض ہوتے رہے۔
1187 میں عظیم سلطان صلاح الدین ایوبی نے کئی ممالک کی مشترکہ صلیبی افواج کو شکست فاش دے کر بیت المقدس یا یروشلم کو فتح کیا۔
1516ء میں ارتغل کی سلطنت عثمانیہ نے یہاں قبضہ کر لیا اور یہ علاقہ پہلی جنگ عظیم تک ترکی کے زیر انتظام رہا۔


جنگ کے اختتام پر ترکی کی شکست کے ساتھ ہی 1920 میں یہاں برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔
بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور
بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے مکمل قبضہ کر لیا ۔


اور یوں موجود ملک "اسرائیل" معرضِ وجود میں آیا۔
اسرائیل اور پاکستان میں مشترکہ چند دلچسپ حقائق اگلے کالم میں بیان کرنے کی کوشش کرونگا۔
جس سے اسرائیل کی پاکستان سے دشمنی کی وضاحت بھی ہو گی اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کرونگا کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگنے پر اسرائیلی ناچ کیوں رہے تھے۔
یہ موضوع ہی دراصل اتنا اہم ہے کہ اسکو سمجھے بغیر موجود بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کا اساسی فہم حاصل نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :