پیشہ ورقاتل

منگل 22 جنوری 2019

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

تصویرمیں ایک ننھی بچی ہاتھ میں فیڈرپکڑے اور دوسری بچی اپنے بندھا ہوا زخمی ہاتھ لئے کھڑی ہیں۔انکے ساتھ کچھ سال ہی بڑا بھائی جس کی ٹانگ میں گولی لگی ہوئی ہے فلنگ اسٹیشن کے باہر حیران پریشان کھڑاہے۔ ان بچوں کو ابھی ابھی ’وردی پوش انکل‘ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، جنہوں نے ان کو اس کار سے نکالا تھا جس میں وہ دودھ پیتے سوگئی تھیں اور پھر خوفناک دھماکوں کی آواز سے گھبراکراٹھ گئیں تھیں۔

دونوں بہنیں اپنی مما اور بابا سے خفاتھیں کہ کار میں اتنا شور اوردھماکے کیوں ہورہے ہیں جن کی وجہ سے وہ کچی نیند سے اٹھ گئیں، ابھی تک ان کویہ نہیں معلوم ہوسکا تھا کہ انکے بابا اور ممی‘ ہمیشہ کیلئے خفاہوکرانکواس بے رحم دنیا میں دربدر ہونے کیلئے چھوڑ گئے
 تھے۔

(جاری ہے)

انکی باجی بھی ناجانے کہاں تھی۔ انہیں نہیں پتا اور شائد کبھی بھی نا چل سکے کہ انکی زندگی میں یہ بھیانک دھماکہ کیوں ہوا ؟ انہیں یہ بھی ادراک نہیں کہ جس طوفان نے ان کو والدین اور بڑی بہن سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا ہے اس سے بھی بڑے طوفان اب انکی زندگی کوہمیشہ ہی نشانہ بناتے رہیں گے۔

یہ ایک اندوھناک واقعہ جس نے ایک ہنستے بستے گھرکو تہس نہس کردیا ہے اور ہردیکھنے اورسننے والے کے دلوں میں چھید کردیئے ہیں کے عقب میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے ہی واقعات ہیں ۔ ایسی چیخیں اور آہیں جو پختوں خواہ اوربلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراکر فضاؤں میں ہی بکھرگئیں،ناکسی اخبارمیں رپورٹ ہوئیں اورناہی سوشل میڈیا تک پہنچ پائیں۔

اگرایسی کوئی خبر نکلی بھی تو لاشوں سے بھی زیادہ مسخ ہوکرجس میں ”دھشت گردوں“کو تہس نہس کرنے کی نوید دے کر بغلیں بجائی گئیں۔ ان علاقوں میں غیر اعلانیہ سنسر شپ ’سچ ‘کھانے والا اژدھابن چکا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں اور بموں سے اڑادیے جانے والے لاشے حقائق بتانے سے قاصر ہیں۔        ساہی وال سانحے نے قصورکی معصوم زینب کے واقعے کی طرح ایک دفعہ پھرپورے ملک کو جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔

یہ ایک ہولناک منظرہے جو پاکستان کے لوگوں کے دلوں کوگھائل کرگیاہے۔ یہ خونچکاں جرم جو کہ ”وردی پوش قاتلوں“نے شعوری طور پر کیا ‘ کی تلافی ناممکن ہے۔ساہی وال سانحے سے قبل ملتان میں قادرپورراں کے قصبے کی پولیس نے مقامی رکن صوبائی اسمبلی کی خواہش کی تکمیل میں عمران نامی 26سالہ تنومند نوجوان کو مبینہ طورپربکری چوری کے الزام میں پکڑکر اتنے شدید جسمانی ٹارچر سے گزارا کہ اسکے جسم کی پشت کا رنگ نیلا ہوگیا اور وہ دوران تشدد ہی اپنی جان کی بازی ہارگیا۔

یہ معمول کے واقعات ہیں ،گاہے گاہے ”مسلح سرکاری اہلکاروں“کے تشددیا براہ راست فائرنگ(جس کو مقابلہ یا فورسز پرحملے کاجواب قراردیاجاتا ہے)سے ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔
”آزادی“ کے72سالوں میں سرکاری اداروں نے پاکستان میں صرف سچ کو دبانے اور جھوٹے پراپگنڈے کو ہی حقیقت بنانے میں خودکفالت حاصل کی ہے۔ بنگال میں قتل عام کے د ل سوز واقعات اور نتائج سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا اور نا ہی سیکھنے کی کوئی جستجو پائی جاتی ہے۔

آج بھی بلوچستان، پختون خواہ اور فاٹاکے علاقوں میں ہونے والی بہت بڑے پیمانے پر ’ہلاکتوں کے حقائق ‘پرپسماندگان اورمقامی حلقوں کے واویلے کو مین سٹریم پریس تک پہنچنے یا چھپنے سے روکا جاتا ہے۔ دانستا یا دباؤ کے تحت”قانون نافذ“ کرنے والے اداروں کے کارناموں کے طور پر پیش کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔     دوسری طرف پنجاب میں جعلی پولیس مقابلوں کی ایک پوری تاریخ ہے، جس کو پنجاب میں صبر شکر کے ساتھ واقعی حقیقی پولیس مقابلہ سمجھ کر قبول کرلیا جاتا رہا ہے،سندھ خاص طور پر کراچی میں ماوارئے عدالت قتل عام کا شکار ہونے والوں کی تعداد مبینہ طور پر سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔

پنجاب اور سندھ کی پولیس ذوالفقارچیمہ،پیر محمد شاہ،چوہدر ی محمد اسلم،راؤ انوار،سہیل ظفرچھٹہ جیسے پیشہ ورقاتلوں سے بھری ہوئی ہے، انہوں نے بلامبالغہ ہزاروں ”پولیس مقابلوں“ میں پولیس کسٹڈی میں ملزموں کو قتل کیا ہے۔یہ خود ہی مدعی،تفتیشی افسر،جج اور جلاد بن کر انسانوں کو موت کی گھاٹ اتارنے میں مہارت رکھتے ہیں اور ریاست کی طرف سے ان پر اس قتل وغارت پر کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

ساہی وال میں قتل عام کے مذکورہ واقعہ پر عمومی ردعمل میں وہی گھسے پٹے مطالبات ابھر رہے ہیں،جو ہمیشہ تکرار کی شکل میں ابھرتے ہیں جیسے”واقعے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، قاتلوں کو سرعام پھانسی دی جائے،بچوں کی پرورش کی حکومت ذمہ داری لی“،یہ جملہ مطالبات پورے بھی ہوجائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ جو بھی کرلیا جائے کسی طور بھی معصوم بچوں کو اس سانحہ سے پہلے والی خانگی زندگی نہیں مل سکتی ہے۔

خلیل کے بچ جانے والے تینوں بچے ساری زندگی اس خونریز زندگی سے خود نہیں نکال پائیں گے۔دوسری طرف سب سے اہم امریہ ہے کہ اگر ذمہ دار ریاستی اہلکاروں کو پکڑکرپھانسی پر بھی چڑھا دیا جائے تو تب بھی قتل وغارت گری اور نہتے معصوم لوگوں کے ساتھ ریاستی جبرکا باب بند ہونے والا نہیں۔    ایک اور گھسا پٹا مطالبہ پولیس ریفارمز کا ہے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کی اصلاحات سے ”ریاست اور اسکے اداروں کا بنیادی کردار “ تبدیل ہوسکتاہے؟ اگر ہم صرف برصغیر کے دونوں ممالک کی پولیس کا ہی جائیزہ لیں تو ایک بات بہت وضاحت سے معلوم ہوتی ہے کہ برصغیر میں پولیس کی تشکیل کے مقاصد انگریز راج کے خلاف اٹھنے والی ہرممکنہ عوامی شورش،مزاحمت،بغاوت یا سیاسی مخالفت کی سرکوبی تھی۔

نوآبادیاتی مقاصد کے تحت ہندوستانی پولیس کی تربیت ہی اس انداز میں کی گئی کہ وہ عام شہریوں کو اپنا دشمن سمجھ کر اسکی تحقیروتذلیل کرے۔اگرچہ پولیس کی تشکیل لارڈ کانویلس نے کی تھی جوکہ ہندوستان میں بیوروکریسی کے ڈھانچے اور فوج کی تعمیر کا بھی خالق تھا مگر خود انگریز اپنی تخلیق کردہ پولیس کو اپنے عزائم سے بھی کئی سودرجے آگے بڑھ جانے پر حیران وپریشان تھی۔

1813ء میں پارلیمان کی ایک کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ”ہندوستانی پولیس کا عوام کے ساتھ سلوک غیر انسانی اور بے رحمانہ ہی،کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستانی پولیس امن پسند شہریوں سے بھی وہی سلوک کرتی ہے جو پیشہ ور ڈاکوں کے ساتھ روا رکھتی ہے“۔1832ء میں گورنرجنرل ’سر ولیم بینٹ نک ‘ہندوستانی پولیس کے متعلق کہتے ہیں کہ”پولیس عوام کی
 حفاظت کے بنیادی فرض سے کہیں دور نظر آتی ہے، عوام میں یہ بہت بدنام ہے،اسکی نیک نامی(اصلاحات) کیلئے اٹھائے گئے اقدامات بے اثر ثابت ہورہے ہیں، یوں کہیے کہ بھیڑوں(عوام) کی رکھوالی والا چرواہا (پولیس)بھیڑیے سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہورہا ہے“۔

یہ پولیس کے ادارے کا آغاز تھا ،اسکے بعد کتنے سیاسی ،سماجی انقلابات آکر گزرگئے اور ملک بھی دوحصوں میں تقسیم ہوکر’ آزادی‘ سے لطف اندوز ہونے لگا، کچھ بدلاؤ بھی آیا مگربہت کچھ پہلے سے بھی بدتر ہوگیا ، پولیس سمیت دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کی عوام کے بارے میں رائے وہی رہی جو انگریز راج میں تھی۔یہ تو تھا
 اس قضئے کا نوآبادیاتی پہلو لیکن ساہی وال واقعہ پرایک ایسا بیان بھی سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ ” ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں“ ۔

یہ بالکل درست اسٹیٹمنٹ ہے۔ دنیابھر
 کی ریاستوں اور ریاستی اداروں کا بنیادی کردار ایک جیساہی ہے۔یعنی وہ سماج سے بالاتر اور سماج کو اپنی دانست کے مطابق ”نظم ونسق“ میں رکھنے کیلئے ”ضروری کاروائیاں“ کرتے رہتے ہیں،خواہ روائتی حکمران اور حاکمیت کے دوسرے حصہ دار ان ”خونی کاروائیوں“ کی مذمت کرتے ہوئے ان واقعات کوقانون شکنی سے تعبیر کرنے کی ڈرامہ بازی کرتے رہیں۔

ایک سرمایہ دارانہ ریاست اپنی حاکمیت والے سماج سے بالاترہوتی ہے اوراسکے مسلح ادارے ناصرف اسکی اس خاصیت کو برقراررکھتے ہیں بلکہ طبقاتی ریاست کے نصب العین کے مطابق طبقاتی تفریق کی گہری لکیر کو مٹنے سے بچانے کافریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔    مملکت خدادا پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے ملکیتی رشتے ‘حتہ کہ استعماری ضروریات' پوری شدت سے موجود ہیں۔

اسکی تکمیل کیلئے تشکیل وتعمیر کئے گے
 ادارے یااوزار اپنا ”حقیقی استحصالی“کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ ریاستی نظم ونسق یا نام نہاد قانون نافذ کرنے والوں کا جبر انکے فرائض میں شامل ہے جسکی انکو تربیت دی جاتی ہے۔جیسے کوئی جلاد(پیشہ ور قاتل) ذاتی طور پر کتنا ہی نرم خو،کیوں نا ہو ہو اسکے پیشہ ورانہ فرائض' اسکی حسیات کو اسکے سرکاری معمول زندگی کے تابع کرکے بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

ایسے ہی بربریت کے اوزارواں کے نام وردیوں کے رنگ،سلوگن اور بکاؤ میڈیا کے پراپگنڈے سے انکا ہولناک کردار عوام دوست ہونا ممکن نہیں۔اصلاح ممکن نہیں ہے۔جب تک کسی سماج کی تشکیل معاشی،سماجی برابری کی بنیاد پر نہیں کی جاتی اور’ انسانی زندگی‘ کو ہر چیز سے زیادہ اولیت نہیں دی جاتی،ساہی وال سانحہ جیسے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ایک گلے سڑے نظام میں اصلاحات کا نعرہ دھوکہ دہی ہے یا پھر حقائق کو ماننے سے انکار ہے۔جب تک یہ فرسودہ نظام موجودہے ریاست کے مسلح اداروں کا کردارسفاکیت سے پاک نہیں کیا جاسکتا اورناہی اندھے قانون کو دیکھنے کی صلاحیت عطاکی جاسکتی ہے۔مگریہ بھی حقیقت ہے کہ نظام خود نہیں بدلتے ان کو بدلنے کیلئے تاریخ کے میدان میں عملی طور پر اترنا پڑتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :