راؤ غلام عباس بھٹی کی عوامی خدمات کا مختصر جائزہ

جمعرات 9 اپریل 2020

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

کئی دن سوشل میڈیا سے بے خبر رہنے کے بعد آج باخبر ی کیلئے موبائل فون پر سوشل میڈیا کا وزٹ کیاتو ایک پوسٹ نظروں سے گزری جس کے نیچے کومینٹ پڑھ کر دکھ ہوا مگر پھر خیال آیا کہ کچھ لوگ اپنے اندر کے عنادو بغض کو تسکین پہنچانے کیلئے اپنی تمام اخلاقی حدیں عبور کر جاتے ہیں۔۔۔
میرا آج کچھ اور لکھنے کا ارادہ تھا مگر پوسٹ پر کومینٹ پڑھ کر ارادہ تبدیل ہو گیا اور میں نے سوچا پہلے اس ٹاپک پر لکھا جائے اگر بات اس شخص کی ذات تک محدود ہوتی تو میں اس پر نہ لکھتا مگر بات ایک ایسے ادارے کی credibility پر کی گئی جس کا تعلق اور منفیت ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ہے جس کی وجہ سے مجھے اپنے ٹاپک سے ہٹ کر سوچنا اور لکھنا پڑ رہا ہے۔

محترم قارئین:علم و حکمت ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں علم معاشرے کی نوک پلک سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اس لیے حصول تعلیم اور تعلیم کے مواقع فراہم کرنیوالوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ بہتر معیار تعلیم ایک موثر اور پرامن معاشرے کا ضامن ہوتا ہے تعلیم انسان کے بنیادی اور اولین ضروریات میں سے ایک ہے انسان کو انسانیت کادرس تعلیم کی بدولت حاصل ہوتاہے میں سمجھتا ہوں کہ ضلع لیہ کو بہت سے خوبصورت حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے جس میں ادب شاعری خوبصورت سماجی و معاشرتی اقدار اور نہ جانے کیا کیا؟ 
مگر ان اقدار کے ساتھ ساتھ دن بدن عروج پاتا ہوا شعبہ تعلیم بھی ہے جس کی بنا پر ضلع لیہ پنجاب نہیں بلکہ پاکستان بھر میں ایک منفرد عظیم نام اور مقام رکھتا ہے اور اس مقام تک پہچانے میں جہاں لیہ کے بہت سے اداروں اور لوگوں نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے وہاں ضلع لیہ کے ایک متوسط کسان کے بیٹے غلام عباس بھٹی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔

(جاری ہے)

لیہ کی تاریخ میں GC یونیورسٹی لیہ کیمپس کا قیام کسی معجزے سے کم نہیں اور اس کے قیام کا تمام تر بیڑا اکیلے غلام عباس بھٹی نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے کئی دہایوں پر محیط یہ کٹھن سفر روشنی کے ایک چھوٹے سے چراغ کی شکل میں لکس کالج سے شروع ہوا اور آج جی سی یونیورسٹی کی شکل میں ایک چمکتے دمکتے سورج کی طرح اپنی کرنوں سے روشنی فراہم کر رہا ہے غلام عباس بھٹی کی شب و روز انتھک محنت اور اربوں روپے کی خطیر رقم سے آج ادارہ ھذا میں شاندار اور اعلی تعلیمی و تربیتی ماحول پایا جاتا ہے اور انہیں شاندار اور بہترین تعلیمی روایات کی بدولت ادارہ ھذا جنوبی پنجاب کا ممتاز ترین ادارہ بن چکا ہے جہاں پورے پاکستان سے طلبا اور طالبات کی کثیر تعداد ڈاکٹر، انجینئر، وکلا، سیاستدان ،سماجی کارکن، لکھاری، صحافی۔

کالم نگار، نیوز اینکر، اساتذہ، ججز، پولیس اور فوج سے وابسطہ ہو کر اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور تعمیر وطن میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔
اگر میں جی سی یونیورسٹی کے قیام کے مقامی طور پر فوائد گنوانے بیٹھوں تو کئی اوراق درکار ہوں گے مگر میں جس بات پر اپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ادارہ ھذا کے بانی چئیرمین غلام عباس بھٹی کی ذات سے لوگوں کو کئی اختلافات ہو سکتے ہیں اُن پر بے شک اختلاف وتنقید کرتے رہیں مگر خدا راہ اس ادارے کو بخش دیا کریں۔

 
میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے تمام فلاحی کام سیاست اور بخل کی نظر کیے جا سکتے ہیں مگر انھوں نے علم وآگہی کا جو چراغ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے جلایا ہے اسے اپنے ذاتی عنادوبغض کے تندوتیز پھونکوں سے بجھانے کی کوشش نہ کریں خدا نخواستہ روشنی کا یہ چراغ بجھ گیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی ضلع لیہ میں جب جب عوام پر مشکل وقت یا کوئی ناگہانی آفت نازل ہوئی تو غلام عباس بھٹی اپنے تمام قبیلے سمیت سب سے پہلے لوگوں کی دہلیز پر جاکر اپنے ذاتی وسائل سے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کرتا ہے مگر کچھ لوگ سوشل میڈیا پر حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن پر طنزوتنقید کی زہر میں آب کیے ہوئے تیر برسانے میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑتے میں غلام عباس بھٹی اور ان جیسے کئی اور خدا ترس لوگوں کی انسان دوست خدمات کو دیکھ کراپنا موضوع بحث اس بات پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ” انسان ایک دوسرے سے مایوس ہو سکتا ہے مگر انسانیت سے نہیں کیونکہ انسان زمانے میں سانس لیتا ہے جبکہ انسانیت زمانوں میں زندہ ہے،،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :