میرے گاؤں کا شہید

جمعرات 3 فروری 2022

Raja Alam Zeb

راجہ عالم زیب

جنوری کی سرد ترین لمبی رات میں جہاں خلق خدا بلاخوف و خطر نہایت ہی پر سکون ماحول میں سو رہی تھی کیونکہ ہر پاکستانی کو یہ پتہ تھا کہ ہمارے بہادر شیر فوجی جوان اپنے گھروں اور پیاروں سے دور ، نرم ملائم گرم بستر کو چھوڑ کر اس سخت سردی میں ہماری حفاظت کیلئے موجود ہیں۔ 25اور26جنوری 2022کو بلوچستان کے علاقے کیچ میں بھی ہماری فوجی جوان اپنی چیک پوسٹوں پر مملکت خداد پاکستان کی حفاظت کیلئے اپنی فرائض منصبی سر انجام دے رہے تھے کہ پاکستان دشمن عناصر نے رات کی تاریکی میں اپنے ناپاک قدم ہمارے پیاری دھرتی پر رکھنے کی ناکام کوشش کی جس پر پاک فوج کے جوانوں نے نہایت ہی بہادری اور دلیری سے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان دشمنوں کا حملہ پسپا کیا اوراپنے ملک کی حفاظت کی ۔

(جاری ہے)


شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوةٰ ہے
یہ وہ شعر ہے جو ہم اپنے بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں مگر ابھی بھی جب یہ شعر کہیں بھی پڑھا جا رہا ہوتو لہو گرما جاتا ہے کیونکہ انہی شہدائے کی وجہ سے آج ہم ایک آزاد ملک میں سکون کی سانس لے رہے ہیں اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔


قارئین کرام !گزشتہ روز معمول کے کاموں میں مصروف تھک ہار کر اپنا موبائل اٹھایا تاکہ کچھ دیر سوشل میڈیا کو بھی دیکھ لیں کیونکہ جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں مجھ پر میڈیا کی ذمہ داریاں ہیں تو اسی سلسلے میں مجھے پڑنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہر وقت وابستہ رہنا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو میں یہاں بتاتا چلوں کے کہ میرا گاؤں ڈھونگ ، تحصیل گوجر خان ہے اور اس کا ذکر میں یہاں کیوں کررہا ہوں وہ آگے آپ کو بتاؤں گا۔

سوشل میڈیا پر میں نے گاؤں میں رہنے والے ایک رشتہ دار کی پوسٹ دیکھی جس پرپاک فوج کے جوان کی تصویر لگی تھی ۔اسی اثناء میں ایک اور چھوٹے کزن نے بھی اسی پاک فوج کے جوان کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ جس پر میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو پتہ چلا یہ ہمارے گاؤں ڈھونگ کا ملک عدنا ن مصطفی اور پاک فوج کی 9بلوچ رجمنٹ میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے اوریہ وہی جوان ہے جس نے اپنالہو دے کر نہایت ہی دلیری سے اپنا گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے کیچ میں پاکستان کا پرچم بلند رکھا اور خود کفن کی سفید چادر اوڑھ لی۔


یہ خبر سن کر اس جوان پر نازہواکہ آج اس جوان نے اپنے جان کا نذرانہ دیکرپاک دھرتی کو نہ صرف بچایا بلکہ اپنے لہو کے ہر ایک قطرے سے اپنے گاؤں ڈھونگ ہی نہیں بلکہ یہاں رہنے والے اور اس گاؤں سے وابستہ پاکستان کے دیگر شہروں یا غیر ملک میں رہنے والے ہر شخص کا سرفخر سے بلند کر دیا۔مجھے افسوس تو اس چیز کا تھا کہ اس دن میں اپنے گاؤں کیوں نہیں ہوں مگر اس کے باوجود میں نے رشتہ داروں اور دوستوں و احبابوں کے طرف سے سوشل میڈیا پرچلنے والی ویڈیو کو دیکھا جس سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں خود وہاں موجود ہوں ۔

ایسے روح پرور مناظر دیکھ کر آنکھوں سے آنسو کا دریا تھا جو تھم نہیں رہا تھا۔ ہر ایک انتظار کر رہا تھا اور ہر لب پر یہی بات تھی کہ شہید کہاں پہنچا؟ کب تک پہنچے گا ؟شہید ملک عدنان نے اپنے ماں باپ کا ہی نہیں ہمارا بھی سر بلند کر دیا؟ ٹیلیفون پر دوسرے گاؤں سے پوچھا جا رہا تھا کہ شہید پہنچ گیا؟ گاؤں میں شہید کے استقبال کیلئے ہر بشر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس شیر جوان کے استقبال میں پھول لے کر کھڑے تھے ۔

تو اسی اثناء میں اطلاع ملی کے ایمبولینس کی آواز آ گئی ہے لگتا ہے شہید گاؤں میں داخل ہو رہا ہے۔
قارئین کرام !ایمبولینس کی آواز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک کسی کو بھی نہ سنائے مگر اس دن ہر ایک اس کی آواز سننے کیلئے بے چین تھا ۔ گاؤں میں داخل ہونے سے موٹرسائیکل پر سوار جوانوں اور بزرگوں کا ایک جم غفیر تھا جو نعرہ تکبیر اللہ اکبر ‘کے بلند نعروں کے ساتھ ساتھ شہید کے استقبال کیلئے اورپروٹوکول دینے کیلئے تیار کھڑے تھے ۔

شہید کا جسد خاکی جس طرح گاؤں میں داخل ہواتو سکول کے بچے پھولوں سے استقبال کیلئے روڈ کے دونوں اطراف کھڑے تھے ۔ شہید ایمبولنس میں گاؤں میں داخل ہوتا گیا اور ہر روح کی آنکھ آنسو سے اشکبار ، نعرہ تکبیر کے نعرے لگاتے اور پھول نچھاور کرتے ہوئے استقبال کر رہی تھی۔ بہنوں کا یہ عالم تھا کہ وہ گھروں کی چھتوں سے پھولوں پھینک رہے تھے۔مائیں اپنے شہید بچے کے آخری دیدار کیلئے ترسی بھری نگاہوں سے شہید کے جسد خاکی کو ایمبولینس میں دیکھ رہی تھیں اور نوح و کناں کر تے ہوئے پھول بھی بچھاور کر رہی تھیں یہ کیفیت غم کی تھی مگر فخر بھی تھا اس عجیب سی کیفیت کو اس وقت میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ فضاء سوگوار تو تھی مگر فضاء کا عالم یہ بھی تھا کہ روح کو سکون اور صبر بھی بھی مل رہا ہے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اللہ پاک کا فضل اور برکت آج ہمارے گاؤں میں ہے۔
شہید کا جسد خاکی گاؤں کی گلیوں سے ہوتا ہوا شہید کے گھر پہنچا تو وہاں ایک علیحدہ ہی روح پرور مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایمبولینس پھولوں کی پتیوں سے سرخ ہو گئی تھی۔ لوگ نعرہ تکبیر کے بلند نعرے لگا رہے تھے شہید کے گھروں کو پھولوں سے سجایا ہو ا تھا بتانے والے بتا رہے تھے کہ وہاں ایک عجیب سے ہی مہک فضاء پر نور کئے ہوئے تھی۔


جنازے پر پھول تو کئی بار دیکھیں ہیں
پھولوں کے جنازے کا عجب ہی منظر تھا
 شہید ملک عدنان مصطفی کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا اپنے والد ملک غلام مصطفی کے پاس پہنچا تو ظاہر کے جوان بیٹے کی وفات پر باپ غم سے تو نڈھال تھے مگر لوگوں کا جم غفیر اس شیر جوان کے والد کو مل رہے تھے اور شہید کی وطن کیلئے قربان پر شہید کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے ۔

ایک ماں کا لخت جگر اپنی دھرتی ماں پر قربان ہو کر اپنے دنیا و آخرت سنوارے ماں کی آغوش میں سبز ہلالی پرچم لپیٹا ابدی نیند سویا ہوا تھا ۔ قربان جاؤں ایسی ماؤں پر جن کے بچوں نے وطن کی حفاطت کیلئے اپنی جان نچھاور کر دی۔ شہید کو فوجی اعزازکیساتھ سپرد خا ک کیا۔ اس موقع پر فوج کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔
قارئین کرام اسی طرح دیگر شہداکے علاقوں میں ایسے مناظر دیکھنے کو لازمی ملے ہوں گے کیونکہ ہماری قوم اپنے شہیدوں کی خدمات کو کبھی نہیں بھولتی۔

پاکستان کے حفاظت کیلئے ہمارے بہت سے شہدانے اپنی جانوں کی قربانیں دے کر اس پاک دھرتی کی حفاظت کی اور کرتے بھی آر ہے ہیں ۔یہاں پر صرف ایک بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بحیثیت پاکستانی ہم سب پر ان شہدا کا قرض ہے کہ ہم ان کے گھروں اور ان کے لواحقین کا خیال رکھیں اور ان کی حفاظت کریں کیونکہ آج اگر ہم اس آزاد ملک میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں یہ سب انہی شہداء کے مرہون منت ہے۔
آؤ محبت سے سلام کر لیں انہیں جن کے حصے میں یہ مقام آتا ہے
بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جنکا لہو وطن کے کام آتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :