ترکی اسرائیل تعلقات...

اتوار 6 ستمبر 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

مشرق وسطٰی کی سیاست میں ایک دلچسپ موڑ اُس وقت دیکھنے کو ملا جب متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کرائے گئے معاہدے میں اپنے تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا۔

(جاری ہے)

اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا منصوبہ معطل کرے گا. مزید یہ کہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات معمول پر لائے گے.

سیاست، براہ راست پروازیں، سکیورٹی، ٹیکنالوجی، توانائی، ہیلتھ، کلچر سمیت دیگر شعبوں کے حوالے سے دونوں ممالک معاہدے پر دستخط کرنے کا ارادہ بھی کریں گے. یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ متحدہ عرب امارات پہلے خلیجی عرب ممالک ہے جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے گی جبکہ مشرق وسطی میں مصر اور اردن پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں.

کچھ دنوں تک بحرین اور عمان بھی یہ اقدام اٹھا لیں گے.
دوسری جانب فلسطین اور اس کے حامی ممالک نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اس معاہدے کو فلسطینیوں کے ساتھ "غداری" قرار دیا. پاکستان، ایران سمیت مختلف ممالک نے اس پر شدید ردعمل بھی دیا لیکن دلچسپ بات ترکی کا ردعمل تھا. انقرہ نے یو اے ای کے فیصلے کو "منافقانہ طرز عمل" قرار دیا. ترک وزیر خارجہ کے مطابق تاریخ اور خطے کی عوام یو اے ای کے اس منافقانہ طرز عمل کو کبھی معاف نہیں کریں گی.
 دوسری جانب صدر رجب طیب اردوان نے بھی شدید رد عمل دیتے ہوئے یو آئی کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی.

کچھ روز قبل، میں نے اس موضوع پر انگریزی میں ایک کالم لکھا جس میں حقائق بھی سامنے رکھے لیکن بعض لوگوں کی جانب سے حقائق سامنے ہونے کے باوجود سچائی سے منہ پھیر لیا. خیر ہر شخص کی اپنی رائے ہے جس کا میں احترام کرتا ہوں.
1949 میں ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریت ملک بنا. ترکی یواے ای-اسرائیل معاہدے کی مخالفت کا تو کر رہا ہے لیکن یہودی ریاست کے ساتھ پہلے ہی سفارتی تعلقات بھی قائم ہے.

1950 میں ترکی کی جانب سے پہلا سفارتی مشن اسرائیل میں بھیجا گیا. 1958 میں دونوں ممالک کے درمیان خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں جس میں انہوں نے تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا. ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کے درمیان دڑاڑے بھی آتی رہی اور علاقائی تنازعات کے باعث تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھنے کو ملی.
1992 میں دونوں ریاستوں نے تعلقات کو دوبارہ بحال کیا.

2002 میں جب اردگان وزیراعظم بنے تو تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا. ترک وزیراعظم نے 2005 میں اسرائیل کا دورہ کیا جس میں انہوں نے اسرائیلی حکومت سے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا.
اب ذرا ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدوں پر بات کرتا ہوں. ترکی اسرائیل نے ایک آزاد تجارتی معاہدہ جسے عام طور پر ایف ٹی اے کہا جاتا ہے پر دستخط کیے ہیں.

2018 کے اعدادوشمار کے مطابق ترکی اسرائیل کا اہم تجارتی شراکت دار ملک ہے. ترکی کی اسرائیل کو برآمد کی جانے والی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، آئرن، کیمیکل، سٹیل کے ساتھ ساتھ شیشے کی مصنوعات بھی شامل ہیں. ترکی اسرائیل سے ہائی ٹیک دفاعی ساز و سامان بھی خرید سکتا ہے جب کہ وہ اسرائیل کو فوجی جوتے اور یونیفارم بھی مہیا کرتا ہے. وزارت تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے ساتھ ترکی کی غیر ملکی تجارت کا حجم 2013 سے تقریبا پانچ سے چھ ملین ڈالر تھا جو 2019 کے اختتام پر 6.6 ملین ڈالر تک پہنچ چکا ہے.
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر یو اے ای اور خصوصی طور پر مسئلہ فلسطین کو چوٹ پہنچی ہے لیکن علاقائی خطرات کو دیکھتے ہوئے یواےای کو یہ اقدام ایک نہ ایک دن اٹھانا ہی تھا بلکہ اب تو سعودی عرب نے بھی اسرائیلی پروازوں کو سعودی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے.
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 1948 کی جنگ سے لے کر 1973 کی جنگ رمضان تک عرب ممالک کا ایک ہی بیانیہ تھا.

یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک مشرق وسطٰی میں بڑے بڑے ممالک کو کس طرح تگنی کا ناچ نچا سکتا ہے. جنگ تہتر میں شکست کے بعد مصری سربراہ انور سادات نے بیان دیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں مگر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ کے ساتھ نہیں.
امریکی مفادات اور ان کے ساتھ چلنے کے لئے خلیجی ریاستوں کو یہ اقدام اٹھانا پڑا ہے. دوسری جانب رجب طیب اردگان جنہوں نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دی تھی کاش وہ یہ کہنے سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے تو شاید ان کی بات کا کچھ وزن ہوتا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :