پی آئی اے اور حب الوطنی

منگل 9 جون 2020

Rana Jahanzaib

رانا جہانزیب

گزشتہ دنوں پی آئی اے کے ایکسیڈنٹ کے بعد میں نے اپنے ہم وطنوں کیلئے ایک پول شروع کیا جس میں خاص طور پر سمندر پارپاکستانیوں کی رائے لی گئی کہ اگر آپکو آپشن ملیں پی آئی اے یا دوسری کوئی ائیر لائین تو آپ کونسی استعمال کرینگے اور اسی کے ساتھساتھ “بائیکاٹ پی آئی اے “ کے نام سے ایک کمپئن شروع کی
یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی کڑی تھے اور میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہم پاکستانی حب الوطنی اور نااہلی میں فرق کر پاتے ہیں یانہیں
جیسا کہ میرا خیال تھا تقریباً تمام لوگوں نے پی آئی اے کے حق میں ووٹ دیا سوائے ان چند لوگوں کے جن کو ذاتی حیثیت میں پیآئی اے سے مشکلات پیش آئی تھیں۔


اور میری بائیکاٹ کی کمپین پر بشمول میرے دوستوں کے مجھ پر بھرپور لعن تان کی اور مجھے بے وقوف، نا تجربہ کار اور پتہ نہیں کیاکیا کہہ ڈالا۔

(جاری ہے)

غدار کا لیبل شاید اس لئے نہیں لگا کہ کچھ تو میرے یار دوست مجھے ذاتی حیثیت میں جانتے تھے اور انھیں شائد یقین تھاکہ میں بے وقوف تو ہوسکتا ہوں مگر غدار نہیں ہوسکتا
خیر اس دورانیے میں اس کمپئن میں بہت سے لوگوں نے غیر متوقع طور پر حصہ لیا اور پی آئی اے کے حق میں ووٹ ڈالے
اس کمپین کے جو اغراض و مقاصد تھے وہ یہ دیکھنا تھے کہ کیا ہمارے ہم وطن نا اہلی کوحب الوطنی کی عینک سے ہی دیکھیں گے یاکوئی آئین سٹائین عمومیت سے ہٹ کر کوئی حل پیش کر سکے گا یہ کوئی نقطہ نکال سکے گا۔

کیونکہ بار بار اس کمپئن کے زریعے یہ بھیسوال کیا گیا کہ کوئی متبادل حل ہو تو بتائیں؟
خیر مجھے ہمیشہ کی طرح یوں مایوسی ہوئی کہ سب نے اپنے اوپر عمومیت کی عینک چڑھا رکھی تھی اور کوئی ہٹ کو سوچنا چاہتا ہی نہتھا گویا کہ قومی ادارے کے خلاف بات کرنا غداری میں شامل ہو۔
بارہا مرتبہ ہر کسی ردعمل دینے والے سے میرا ایک ہی سوال ہوتا تھا کہ اگر مجھ پر یقین نہیں کرتے تو خود آزما کر دیکھ لیں۔

مگر شایدقومی ادارے کو آزمانا بھی انکے نزدیک شرک میں شامل تھا
ایک اور چیز جو بڑی کھل کر سامنے آئی تقریباً تمام ان لوگوں نے پی آئی اے کے خلاف ووٹ دیا جو بذات خود پی آئی اے کےڈسے ہوئے تھے ۔ لہذا یہ ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ ہماری قوم کا ایک ہی نعرہ ہے “اپنا کام بنتا، بھاڑ میں جائے جنتا” جب تک خودپر نہیں بنتی ہم عمومیت سے ہٹ کر سوچ ہی نہیں سکتے یعنی یہ چپ ہمارے دماغ میں سرے سے موجود ہی نہیں کیونکہ بقولوزیراعظم عمران خان ملاوٹ شدہ خوارزم کھانے سے ہماری قوم کے بچوں کا دماغ چھوٹا رہ گیا اور وہ نشونما جو ہونی چاہئے تھی یا کہجو مغرب میں بچوں کی ہوتی ہے ہمارے بچے اس سے قاصر تھے
ایک اور بات جو میں سمجھنے سے قاصر تھا وہ یہ کہ جب ہم برطانیہ سے پاکستان جاتے ہیں اور پیسے بھی پورے ادا کرتے ہیں تو ہم انسہولتوں کی ڈیمانڈ کیوں نہیں کرسکتے جو انھی پیسوں میں دوسری ائرلائن دے رہی ہیں؟
چلیں سہولتوں کو بھی چھوڑیں۔

ہوائی سفر کی جو چیز سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہے وہ ائر ہوسٹس اور ہوائی عملے کا تمیز وتہذیب سے پیش آنا ہے۔ آپ زرا ایمریٹس ، گلف اور قطر ائرلائن میں سفر کرکے دیکھیں ، آپ عملے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھدیکھ کر حیران ہونگے
حالانکہ عربوں کا تمیز اور تہذیب سے پیش آنے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں یہ بات وہ بھائی بتائیں گے جو عرب ممالک میں رہ کرآئے ہیں کہ عربی قوم دوسری قوموں کو بالخصوص ہم پاکستانیوں کو کتنی عزت دیتی ہے۔


مگر مجال ہے کہ اسکی کوئی جھلک آپکو جہاز میں نظر آئے اور دوسری طرف ہماری ائر لائن ہمیشہ خبروں کا حصہ بنی رہتی ہے
کبھی ہمارا پائلٹ نشے میں پایا جاتا ہے ، کبھی پائلٹ سے ڈرگز نکلتی ہیں ، کچھ اور نہیں تو اضافی سگریٹ لانے پر بھی عملے کو پکڑاجاچکاہے
جب میں یہ سب خبریں  پڑھتا ہوں اور پھر ہمارے جہاز کریش ہوتے دیکھتا ہوں اور کریش کے بعد جو افراتفری کا منظر دیکھتا ہوںتو مجھے وہ ہندوستانی فلم یاد آتی ہے جس میں دفاعی وزیر نے اپنے تھوڑے سے کٹ کیلئے بیلٹ پروف جیکٹوں کا کنٹریکٹ اپنیپسندیدہ فرم کو دیا جسکی فراہم کردہ جیکٹس گولی کو روک ہی نہ پاتی تھیں۔

لیکن ظاہر ہے گولی روز روز تھوڑی چلتی ہے اور اگر کبھیکوئی حادثہ پیش بھی آگیا تو ایک پولیس والے کی کیا مجال کے منسٹر کے خلاف کچھ کرسکے
بالکل یہی حال مجھے پی آئی اے کا نظر آتا ہے، میں کافی عرصے سے دیکھ اور سن رہا ہوں کہ پی آئی اے کا چئرمین تبدیل ہوگیا ہےاب کچھ ہی عرصے میں یہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی۔ مگر کبھی تو وہی چئرمین پی آئی اے کے جہاز سمیت غائب ہوجاتا ہے اور کبھیچئرمین کی تقرری ہی غیر قانونی نکلتی ہے
خیر العرض یہ کہ سوشل میڈیا اور پریس بریفنگ سے ہٹ کر پی آئی اے کو جب بھی آزمانے کا سوچا تو  باقی محکموں کے بڑے بڑےدعووں کی طرح پی آئی اے کے دعوے بھی جھوٹے ہی نکلے۔


اسکا سب سے بڑا ثبوت حالیہ ایکسیڈنٹ ہے جس کے فوری بعد میڈیا پر آکر بہت بڑے بڑے دعوے تو ضرور کئے گئے مگر ماضی کیطرح ہی ان دعووں کا اثر ان عوام تک نہیں پہنچ سکا جو اس حادثے سے متاثر ہوئی تھی جن کے مطابق حکومت اور پی آئی اے کاسرے سے کوئی نظام ہے ہی نہیں، کسی کو پتہ ہی نہیں کہ کونسا کام کہاں سے ہوگا، حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کواپنے پیاروں کی لاشوں کے لئے ہی اتنا ذلیل و خوار کیا گیا کہ مجبور ہوکر انکو سوشل میڈیا کا سہار لینا پڑا اور وزیراعظم اور چیفآف آرمی سٹاف سے مدد کی درخواست کرنی پڑی ۔


ایک اور چیز جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ اپنی نا اہلی کو چھپانے کیلئے حکومت کی طرف سے فوری طور پر حادثے میں جاں بحقمسافروں کو شہید کا درجہ دیدیا جاتا ہے تاکہ سادہ لوح عوام اور ورثا حکومتی نا اہلی اور اپنے پیاروں کی موت کے سبب کو بھولجائے اور انکوائری کا مطالبہ کرنے کی بجائے دنیا اور آخرت کی اس عزت افزائی پر فخر محسوس کرنا شروع کردیں ۔

یہ بھی ایکبہت بڑی گولی ہے جو عرصہ دراز سے ہماری سادہ لوح عوام کو دی جارہی ہے
پی آئی اے میں کس طرز پر بدنظمی ہے اسکو جانچنے کیلئے اپنے اگلی کالم میں ایک کیس سٹڈی پیش کروں گا اور دعوی کرتا ہوں کہ جسکے ساتھ بھی یہ پیش آیا ہوگا وہ دوبارہ کبھی پی آئی اے کو اچھا نہیں کہے گا
اب واپس آتے ہیں پھر پی آئی اے کی طرف تو ایک اور چیر جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ ہماری عوام پی آئی اے سمیت کسی ادارےسے کارکردگی کی توقع ہی نہیں رکھتی اور جواز یہ ہے کہ ہم تیسری دنیا کے ممالک ہیں اور ہمارا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے نہیں کیاجاسکتا۔

اس بات پر تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور یہ سوچنے لگا جو قوم نااہلی اور ظلم کے زریعے اپنا حق چھینے جانے پر بالکل مطمعینہے اور اپنے حق کیلئے مطالبہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطالبہ کرنے والے کو پاگل کہتی ہے  تو انکی حالت کیسے ٹھیک ہوگی
بقول شاعر مشرق علامہ محمد قبال “ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا”
تو جیسا کہ میں ہمیشہ حقوق کی بات کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے، خود انحصار ہوجائے لہذا میراقارئین سے ایک پرزور مطالبہ ہے کہ اگر آپ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حالت بدلنا چاہتے ہیں تو اسکا پہلا قدم ہے اپنے حقکیلئے آواز اٹھانا۔

اپنا حق کبھی مت چھوڑیں اور آخری سانس تک لڑتے رہیں اور پھر ایک اکیلا اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ ایک تو میںہوگیا اب مجھے میرے ساتھ دوسرا چاہئے گیارہ بننے کیلئے۔ کون دیگا میرا ساتھ ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :