ملکی معیشت کی زوال پزیری اور عوامی مشکلات

جمعہ 26 جولائی 2019

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

 پچھلے کئی برسوں میں ملکی معیشت کی زوال پزیری، سیاسی عدم استحکام، طاقت ور ذخیرہ اندوز مافیا اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کی صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول پر نظر نے عوام کو انتہائی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ حکومتوں کی عدم توجہی کی بدولت بے روزگاری اور خاص طور پر مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ غریب تو غریب سفید پوش طبقے کے لئے بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔


 پچھلے چند برسوں میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک کثیر تعداد غریب طبقے میں شامل ہو چکی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے باعث ملک کی آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہو کر رہ گئی ہے غربت کے باعث لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنے گھروں کا خرچ چلانے کے لئے کام کاج کرنے پر مجبور ہیں۔

(جاری ہے)

اس دوران گروتھ ریٹ میں شاندار اضافے کا بھی چرچا کیا جاتا رہا لیکن پیٹرولیم مصنوعات، بجلی گیس سے لے کر آٹا اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہی ہوا ہے، لوگوں کی قوتِ خرید گھٹتی چلی گئی اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ معاشی منصوبہ ساز یہی سمجھتے رہے کہ معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ملک میں جہاں غربت بڑھ رہی تھی وہیں صحت کی سہولیات کا فقدان ہوتا چلا جا رہا تھا۔

 
 ملک میں غربت کا منحوس چکر اسی لئے چل پڑا تھا کہ جہاں ایک طرف بے روزگاری بڑھتی جا رہی تھی جس کے باعث بیروزگاروں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا ان کی جیب خالی تھی اور لوگ چھوٹے موٹے روزگار کے ذریعے محدود یا کم آمدن حاصل کر رہے تھے ۔مہنگائی کے باعث ان کی قوتِ خرید جواب دے رہی تھی اور ان کی جیبیں خالی ہو رہی تھیں۔ ملک میں غربت کے منحوس چکر کے باعث لوگوں کی آمدنیاں بھی کم ہوتی چلی جا رہی تھیں۔

ملک میں آمدنی کی تقسیم میں ناہمواری بڑھتی چلی گئی۔ امیر طبقہ اپنی بچتوں کو صنعتوں کارخانوں میں نہیں لگا رہا تھا۔ صنعتی پیداوار کم ہو رہی تھی کیونکہ آئی ایم ایف کے دباوٴ کے تحت بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ لہٰذا ملکی صنعتکار اپنی صنعتیں بیرونِ ملک شفٹ کر رہے تھے یا وہ دھڑا دھڑ روپیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کر رہے تھے یا اپنی بچتوں کو غیر پیداواری کاموں میں صرف کر رہے تھے۔

 صنعتوں کی بجائے تجارت، سٹہ بازی، پلاٹوں زمینوں کی خرید، غیر ملکی کرنسیوں کی خریداری اور بانڈز وغیرہ کی خریداری میں اپنی بچتیں صرف کرتے چلے جا رہے تھے۔ پیداواری عمل کے لئے نئی صنعتوں، نئے کارخانوں کا قیام ضروری ہوتا ہے کہ اس سے جی ڈی پی اور معیشت میں وسعت آتی ہے جب کہ اوپر بیان کئے گئے کاروباروں میں سرمایہ کاری معیشت کی حرکت پر نہیں بلکہ انجماد پر دلالت کرتی ہے اور اس سے معیشت غیر متحرک اور پیداواری عمل رک گیا۔

 
دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے کم آمدنی والوں کی معمولی بچت بھی اب ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ بچت کے بجائے ان پر قرض کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر فرد جو کہ کم آمدنی یا محدود آمدن یا تنخواہ دار طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر ماہ قرض حاصل کرنے لگ گیا تھا۔ ان میں سرکاری ملازمین کی بھی حالت کافی خراب تھی۔ کیونکہ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پر ان کے اخراجات میں مسلسل اضافے نے ان کو مقروض بنا کر رکھ دیا تھا۔

حکومت ان کی اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے بجٹوں میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی چلی گئی۔ چونکہ صنعتکاری میں تعطل کی وجہ سے اشیاء تو پیدا ہو نہیں رہی تھیں اس لئے ملک میں موجود اشیاء کی ہی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا جس سے افراطِ زر بھی بہت بڑھ گیا۔
معیشت کے کمزور ہونے کے عمل میں یقیناً بنیادی کردار ملک کے حکمرانوں کا ہی رہا ہے، مگر اس کا خمیازہ ملک کے غریب عوام بھگت رہے ہیں۔

زندگی گزارنے کی تمام بنیادی ضرورتوں سے عوام محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پینے کا پانی ہو، بجلی کا مسئلہ ہو یا آٹے جیسی شے کا مسئلہ ہو، جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ہی محال ہو جاتا ہے۔ سب کے سب عوام کی پہنچ سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔
 بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے عوام کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں جب کہ گھروں میں اندھیراہے۔ بجلی کی عدم دستیابی نے کاروبار تباہ کر کے رکھ دیا ہے جس سے ماہانہ آمدنی میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حالات میں نہ تو عوام کی حالت بہتر ہو سکتی ہے نہ ہی ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر میں کساد بازاری کی ہوا چل رہی ہے، ادارے دیوالیہ ہو رہے ہیں لیکن دنیا کے کسی ملک میں وہاں کے سیاست دان ہمارے سیاست دانوں کی طرح بیرونِ ملک اکاوٴنٹس نہیں رکھتے۔ 
یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر یہ سیاست دان اور دیگر افراد جن کے بیرونی دنیا میں اثاثے ہیں وہ پاکستان لے آئیں تو پاکستانی معیشت کو کسی سے قرضہ لینے کی ضرورت نہ رہے اور پاکستانی معیشت با آسانی موجودہ بحران سے نکل سکتی ہے۔

ہمیں کسی بھی معاشی مشکل میں آئی ایم ایف کی طرف دیکھنا پڑتا ہے، صرف چند بڑی شخصیات اپنے بیرونِ ملک اثاثے پاکستان منتقل کر دیں تو لا محالہ یہ رقم آئی ایم ایف کی امدادی رقم سے کہیں زیادہ ہو گی ۔یوں کسی امداد کے لئے آئی ایم ایف کا محتاج ہونے کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور چند ہی سالوں میں ملک حقیقی ترقی کر لے گا جس سے پاکستان کی معیشت بہترہو گی نتیجتاً عوام کے معیارِ زندگی میں بھی بہتری پیدا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :