اسرائیل مصنوعی ریاست جو امریکی پشت پناہی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی

جمعرات 13 فروری 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے "اسرائیل فلسطین حل کے منصوبے" کے مطابق 1967ء کے بعد فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو امریکہ نے باقاعدہ تسلیم کر لیا جنہیں اقوامِ متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ یوں اسرائیل کو خطے میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق 1948ء کی جنگ کے نتیجے میں 700000 فلسطینی بے گھر ہوئے تھے اگر وہ چاہیں بھی تو واپس فلسطین آ کر آباد نہیں ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کے قیام کے بعد طاقت کے بل پر ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور ان کے وطن سے بیدخل کر دیا گیا تھا۔ ہمیشہ فلسطینیوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ ارضِ فلسطین کے باہر پناہ گزین فلسطینیوں کو اپنے وطن واپس آنے اور یہاں بسنے کی اجازت دی جائے لیکن اسرائیل نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ ان فلسطینیوں کی واپسی سے اسرائیل میں آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔

(جاری ہے)

خیال کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ بہت پہلے امن منصوبے کا اعلان کرنا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی وزیرِا عظم کے انتخابات سے پہلے اس منصوبے کے اعلان کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا فائدہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ہو گا کیونکہ امن منصوبے کے تحت مغربی کنارے کے 15 فیصد علاقے کو اسرائیل میں ضم کیا جا سکے گا اور مشرقی یروشلم کے ارد گرد فلسطینی بستیوں پر اسرائیل قبضہ کر سکے گا یوں یہ اسرائیل کی غیر معمولی فتح تصور کی جائے گی اور بلاشبہ اس کا سہرا نیتن یاہو کے سر رہے گا۔

ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بڑی تیزی سے امریکہ نے اسرائیل سے قریبی تعلقات استوار کئے ہیں اور عالمی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں فیصلے کئے ہیں جن میں سب سے پہلا فیصلہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر امریکہ کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنا ہے۔ پھر حال ہی میں امریکہ نے جولان کے پہاڑی علاقے پر بھی اسرائیل کے فوجی تسلط کو جائز قرار دیا ہے۔

اس صورت حال کے پیشِ نظر اسرائیل کو بھرپور اعتماد تھا کہ ٹرمپ امن منصوبہ غیر معمولی طور پر اسرائیل کے حق میں جائے گا اور اب یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ امن منصوبہ اس اعتماد پر پورا اترا ہے اور اس میں اسرائیل کو غیر معمولی مراعات سے نوازا گیا ہے جن کے تحت فلسطین کا وجود عملی طور پر ختم ہو جائے گا ۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں امن نہیں بلکہ صرف صہیونی ریاست کے دفاع کا منصوبہ تیار کیا ہے جس میں غاصب اسرائیلی ریاست کو خطے کے دوسرے ممالک پر مسلط کرنے اور دوسری اقوام کو اسرائیل کا غلام بنانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

اس منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیلی جبر و تشدد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ۔ امریکی امن منصوبے میں فلسطینی قوم کے آئینی اور قانونی حقوق کو پامال کیاگیا ہے۔
دنیا میں ہر جگہ تضادات اور منافقت نظر آتی ہے۔ تضاد اور نفاق کا یہ کھیل تو صدیوں سے جاری ہے مگر بالخصوص گزشتہ صدی سے جن میں روشن خیالی، مساوات، انصاف اور امن کے نعرے مسلمہ اقدار کی صورت اختیار کر چکے ہیں، ان اقدار سے کھلا انحراف کسی فرد، قوم اور ادارے کے لئے ممکن نہیں چنانچہ ایسا کرنے کے لئے مکاری اور عیاری پر مبنی منافقت کا سہارا لیا جاتا ہے۔

کسی ملک کے حکمران ہوں یا کسی ادارے کے مالکان، ان کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ مذہب، رنگ، جنس اور نسل کی بنیاد پر کسی امتیاز اور مذہبی و نسلی منافرت پر یقین نہیں رکھتے مگر ان میں سے بہت سوں کا عمل اس قول کے برعکس ہوتا ہے۔ مظلومیت کی مثال بن جانے والی غزہ کی سر زمین نے اس تضاد اور منافقت کو نمایاں کر دیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ جو دنیا یہودیوں اور اسرائیل پر ذرہ سی تنقید کو نفرت اور تعصب کا نام دے کر ایسا کرنے والے کے پیچھے پڑ جاتی ہے، وہ مسلمانوں خصوصاً اسرائیل کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں سے کس طرح تعصب برتتی ہے۔

اس رویے کا اظہار حالیہ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ اس کی بڑی مثال ہے۔ امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے سلامتی کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جب امریکہ نے اسرائیل کو فلسطینی علاقے کو ہڑپ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے تو ایسے میں فلسطینی صدر کی اس فیصلے کے خلاف اپیل کیا معنی رکھتی ہے۔

اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی قوتیں غاصب اسرائیل کو روکنے کے لئے سنجیدہ ہوتیں تو اسرائیل نہ تو فلسطین پر قابض ہوتا اور نہ ہی ان کا اس قدر خون بہتا۔ اسرائیل کا قیام ہی فلسطینی سر زمین کے ایک بڑے حصے پر وجود میں آیا تھا اس کے بعد اسرائیل وقفے وقفے سے فلسطین کے مزید علاقوں پر قبضہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب فلسطین کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط جما چکا ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں کی آشیر آباد تو موجود ہے ہی عرب لیگ اور او آئی سی کی خاموشی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ او آئی سی اور عرب لیگ کی بے عملی ہی سے امریکہ کو اس قسم کا منصوبہ بنانے کی ہلہ شیری ملی۔ اسرائیل کو بخوبی ادراک ہے کہ تمام عالمی قوتیں اس کے ساتھ ہیں اور مسلم ممالک میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اسے عملی طور پر روک سکیں۔

لہٰذا اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جب چاہتا ہے فلسطینیوں کا قتلِ عام شروع کر دیتا ہے۔ اس حقیقت کی بناء پر اسرائیل کو بہت پہلے انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں شامل کر دیا جانا چاہئے تھا، لیکن ان تمام حالات کے باوجود امریکی حکمران اسرائیل کی سر پرستی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اسرائیل کے تمام جرائم کا اصل سبب وہ خود ہیں۔ اسرائیل ایک قطعی مصنوعی ریاست ہے جو امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :