خود ساختہ نظام جمہوریت؟

ہفتہ 16 فروری 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

پاکستان کی سیاسی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو تبدیلی کی جدوجہد سات دہائیوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن پر عزم‘ایماندار اور محب وطن قیادت کے فقدان اور سیاستدانوں کے روایتی طرز عمل کے باعث تبدیلی دلپذیر نعروں‘وعدوں اور دعوؤں سے آگے کی حد عبور نہ کر سکی۔بد قسمتی سے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اقتدار کا حصول اور اپنے مفادات کے تحفظ کو ہی مفاد عامہ سے زیادہ اپنی ترجیحات کو مقدم سمجھتے ہیں۔

عام فرد اپنے گرد مسائل کے انبار دیکھ کر اور بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی پر تبدیلی کی شدید خواہش تو رکھتا ہے لیکن جمود ی اور مفاد عامہ سے عاری سیاست کے سامنے اس کی خواہش دم توڑ جاتی ہے۔تبدیلی کی گونج کبھی جمہوریت کے پروردہ سیاست دانوں کے نعروں‘وعدوں ‘ دعووں کبھی احتجاجی سیاست کبھی دھرنوں میں سنائی دیتی ہے اور تبدیلی کے نعرہ کی کاٹھ پر بیٹھ کر سیاست دان اقتدار بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عوام کو ایسی تبدیلی سنپولیوں کی طرح ڈستی رہتی ہے۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ آخر عام آدمی موجودہ روایتی طرز حکمرانی سے بیزار کیوں ہو چکا ہے۔بدقسمتی سے سیاسی طالع آزماؤں کی بار بار سینہ زوری کے باعث یہ ملک اپنی اصل بنیاد پر قدم نہ جما سکا ۔ملک میں موجود اشرافیہ خاندانوں نے اپنے اقتدار اور مفادات کو تحفظ دینے کے لئے عوام کو ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیاملکی ترقی اور مفاد عامہ سے عاری فیصلوں کی بدولت یہ ملک ترقی و خوشحالی کی بجائے پستی کی جانب گامزن رہا۔

یہ ملک ایک نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا جہاں اس ملک کے عوام اپنی مذہبی‘سماجی اور سیاسی زندگی کو اپنے اقدار و روایات کیساتھ گذار سکیں۔
اکہتر برس کے پاکستان میں حکمرانوں نے نہ تو اس ملک کے نظام کو اسلامی ا صولوں پر استوار کیا اور نہ ہی مغرب کی جمہوریت کی تقلید کرتے ہوئے اسے پورے لوازمات کیساتھ نافذالعمل کر سکے بلکہ اس کے برعکس عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کی بجائے اس عوام کا دامن غربت و بیروزگاری‘ مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ دہشتگردی‘ کرپشن‘ انصاف کی عدم دستیابی‘رشوت و سفارش اور اقرباء پروری جیسے مہلک مسائل کی گرہ سے باندھ دیا۔

یہاں تک کہ آج اس ملک میں پیدا ہونیوالے نومولود بچوں کی سانسیں تک اپنے مفادات کے عوض گروی رکھ دیں روٹی‘کپڑا اور مکان‘ بدلتا پاکستان اور پاکستان کھپے جیسے نعروں کے موجد سیاستدانوں کے شاہانہ ٹھاٹھ اور کرپشن کی کہانیاں آج سر بازار نوحہ کناں ہیں۔جس طرح ان حکمرانوں نے عوام کے بدن سے قبا کو نوچ کر تار تار کیا شائد تاریخ میں اس کی نظیر نہ ملے۔

 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شور بپا کر کے سڑکیں ناپنے کی بجائے پورے انتخابی عمل کو آزادانہ اور منصفانہ بنا کر عوام کے مینڈیٹ کی حفاظت کی جاتی سوال یہ ہے کہ یہ کس کی ذمہ داری تھی چور دروازوں کی بنیاد کس نے رکھی جمہوری حکمرانی کے دعویدار سیاستدان اس سوال کا جواب دیں کہ جو خود ساختہ نظام جمہوریت ملک میں موجود ہے یہ نظام جمہور کی حکمرانی سے عاری کیوں ہے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ آئین پاکستان کا آرٹیکل 38جمہوری حکمرانوں کے ادوار میں معطل کیوں رہا مغرب سے جمہوریت کا لفظ تو لے لیا لیکن اس لفظ جمہوریت کی تقلید کے لئے اس عوام کو کوئی جمہوری حکمراں میسر نہ آسکا۔

المیہ یہ ہے کہ جب اقتداری طبقات کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو انکی خود ساختہ جمہوریت کو خطرات لا حق ہو جاتے ہیں پھر یہ مغرب میں رائج جمہوری نظام کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ کیا مغربی ممالک میں پاکستان کی طرز حکمرانی جیسی جمہوریت قائم ہے تو یقین جانئیے جب آپ جمہوری ممالک کی تاریخ کھنگال کر دیکھیں گے تو ان ممالک میں جمہوریت پورے لوازمات کیساتھ رائج نظر آئیگی۔

دنیا کے جمہوری ممالک میں گڈ گورننس‘اداروں میں اکاؤنٹیبلٹی اور شفافیت ہوتی ہے‘کرپشن کے خاتمے کے لئے سیاسی‘انتخابی اور قانونی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں‘کرپٹ لوگوں کو قانوں کے ذریعے ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے‘قانون سازی کے ذریعے اداروں کو آزاد اور خود مختار بناتے ہوئے ان میں احتساب کا خود کار نظام وضع کیا جاتا ہے‘عدم مساوات کو ختم کر کے معاشرہ سے غربت ختم کی جاتی ہے‘معاشرہ میں بسنے والے عام فرد کو روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے آراستہ کیا جاتا ہے‘ہر طبقہ کو برابر نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے یہ وہ لوازمات ہیں جو جمہوریت کو مکمل کرتے ہیں ۔

اب اگر پاکستان میں رائج خود ساختہ جمہوری کلچر کو دیکھا جائے تو یہاں ووٹر کو عزت دینے کی بجائے اس کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے ‘اداروں میں کوئی اکاؤنٹیبلٹی اور شفافیت نہیں‘کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوئی مئوثر قانون سازی نہیں جس کے ذریعے کرپٹ لوگوں کے لئے سزا کا تعین ہو سکے‘ریاستی ادارے آزاد اور خود مختار نہیں اور نہ ہی ان میں احتساب کا کوئی خود کار نظام وضع ہے۔

معاشرہ میں عدم مساوات کی وجہ سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے‘ریاست معاشرہ میں بسنے والے افراد کو روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرنے سے قاصر ہے‘معاشرے میں موجود طبقات برابر کی نمائندگی سے یکسر محروم ہیں ۔ایسی مانگے تانگے کے جمہوری نظام کے ثمرات اشرافیہ کے در کا طواف تو ضرور کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کی روایتی آمریتی سوچ نے ایلیٹ کلاس اور متوسط طبقہ کے درمیان امیتازی خلیج قائم کر دی جس کے باعث عام فرد کے گرد ہر گذرتے دن کے ساتھ جان لیوا مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

طوطا چشم سیاستدانوں کی ڈھونگ جمہوریت نے غریب آدمی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت و بیروزگاری‘کمر توڑ مہنگائی‘افلاس‘کرپشن و بدعنوانی‘اقرباء پروری‘رشوت و سفارش جیسے مہلک مسائل انسانی حیات کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہوں تو ایسے میں غیر جمہوری حکمران جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہوں تو اس سے بڑی اس ملک کے عوام کی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔

یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے تاریخ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنے منصب سے جڑی ذمہ داریوں سے مفر اختیار کی تاریخ نے انہیں نوشتہ دیوار بنا دیا۔جہاں کے حکمران اپنی نسل نو کے مستقبل سے لا تعلق ہو جائیں اپنے گھر کو محفوظ بنا کر ایک دوسرے کی فکر چھوڑ دیں اس معاشرے میں کبھی تبدیلی اور انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ ایسے معاشرے شام‘لبنان اور عراق بن جاتے ہیں ۔

پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کے در پر کھڑے ہو کر دیکھ لیںآ مریتی سوچ سے گندھی جمہوریت نے کبھی ضیاء کی باقیات کے خاتمے‘کبھی پیپلز پارٹی کی فسطائیت‘کبھی زرداری کی کرپشن‘کبھی یااللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘کبھی معاشی پالیسیوں‘کبھی مہنگے پراجیکٹس‘کبھی ایک زرداری سب پر بھاری جیسے نعرے اس عوام کی لیکھ میں لکھ دئیے لیکن اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ سات دہائیاں گذرنے کے بعد بھی عوام ان چالباز سیاستدانوں کے دلفریب نعروں‘دعوؤں اور وعدوں کے سحر سے نہ نکل سکی ذہن کے در پر سوال دستک دیتا ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جو عوام کو ڈلیور کرنے کی بجائے مسائل کے آسیب میں جکڑ رہی ہے یہ ایسا ڈستا سوال ہے جو جمہوری علمبردار سیاستدانوں کے سر فرض کی طرح قرض ہے مستقبل قریب میں ایسے سیاستدانوں کے لئے حالات کی دستک سب اچھا کی نفی کا زائچہ کھولے ہوئے ہے جو غیر جمہوری سیاسی قوتوں کی خود ساختہ جمہوریت کے باب کو ہمیشہ کے لئے بند کر دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :