عمران خان کو موقع دیں!

جمعہ 26 اپریل 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے ابھی چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے لیکن حکومت مخالف سیاسی جماعتوں اور سرمایہ دارانہ سوچ کی کوکھ سے جنم لینے والے دانشور طبقہ نے عمران خان کے تخت حکمرانی کو تاراج کرنے کے لئے مورچے سنبھال لئے ہیں اور عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔


میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن اور ان سے متعلقہ میڈیا عوام میں تبدیلی مخالف تاثر کو ابھارنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے اور یہی حالات حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج بھی ہیں اور صبر آزما بھی ‘اسد عمر کا استعفی آیا تو اپوزیشن اور میڈیا نے اس خبر کو ااس انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جیسے حکومت چاروں شانے چت ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)

وزارت خزانہ ملکی معیشت کے استحکام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے سمجھ لیں کہ اگر یہ ناکام ہو جائے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی بلکہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو عوام نے پانچ سال کے لئے منتخب کیا ہے اگر کابینہ کا کوئی وزیر اپنی کارکردگی کے اہداف حاصل نہیں کرتا اس سے قلمدان واپس لے لیا جاتا ہے تو اس پر شادیانے بجانے یا اس سے یہ اخذ کر لینا کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے درست نہیں یہ حکومتی تسلسل کا ایک حصہ ہے حکومتوں کی کارکردگی کے معیار کا یہ کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کہ اگر کوئی وزیر قابل اور ایماندار ہو لیکن وزارت چلانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور اس کے باوجود اسے پھر بھی وزارت کا حق دیا جائے۔

ملکی معیشت کو اس قدر استحکام نہیں مل سکا کہ عام آدمی برملا یہ کہہ سکے کہ اس کا آج کل سے بہتر ہے مہنگائی پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی‘بڑے پیمانے کی صنعت کاری میں کمی‘شرح مبادلہ میں کمی‘مالیاتی خسارے میں اضافہ‘خسارہ پورا کرنے کے لئے قرضوں کا حصول یہ حالات تھے جس کے باعث حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے اگر عمران خان نے وزارتوں کے قلمدان واپس لینے اور تبدیل کرنے کے حوالے سے بولڈ فیصلے کئے ہیں تو ہمیں آنے والے وقت میں بہتری کی امید رکھنی چاہیے نہ کہ کارپوریٹ کلچر کے حامی سیاستدانوں اور میڈیا کے بے بنیاد پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر مایوس ہونا چاہیے۔

قوموں کے عروج پر نظر ڈالیں وہی قومیں ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں جو مشکل حالات سے گذر کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں ۔حالیہ کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم نے جو ادویات کی پرانی قیمتیں بحال کرنے اور مہنگائی میں کمی لانے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں اس سے یقیننا عوام میں پائی جانیوالی مایوسی میں جہاں کمی واقع ہوگی وہیں حکومت مخالف قوتوں کو بھی ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا۔

بحر حال عوام کو ریلیف ملنا چاہیے لیکن عوام کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ حکومت کے پاس الہ دین کا کوئی چراغ ہے جس سے فوری خوشنما تبدیلی کے چراغ جل اٹھیں گے ۔عمران خان کے راستے کی رکاوٹ خود اس کی کابینہ میں موجود وہ کھوٹے سکے ہیں جو صرف اپنے مفادات کے رکھوالے ہیں اور وہ اسی نظریے کے تحت اس حکومت کا حصہ بنے اور یہی وہ عمران خان کے لئے مہلک سیاسی مہرے ہیں جو مسلم لیگ ن‘پیپلز پارٹی کو اندرونی خبریں پہنچا کر حکومت کی کشتی میں سوراخ کر رہے ہیں اس وقت ملک کو نہ صرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے بلکہ ملک دشمن قوتوں کی جانب سے داخلی و خارجی سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔

ملک دشمن قوتوں نے جو پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں میں بیج بو کر جو آبیاری کی ہے انہی کے باعث نظام عدم استحکام سے دوچار ہے اگر اس فصل کو کاٹا نہ گیا تو نہ ملک میں بے لاگ احتساب ہوسکے گا اور نہ ہی ملک و ملت کی ابتر حالت میں کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔اس وقت مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا تبدیلی کے دوراہے پر کھڑا ہے دنیا وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت تبدیلی کے مراحل سے گذر رہی ہے اور شائد یہی وہ حالات ہیں جن کے باعث اس بازگشت کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی جموری نظام اس قابل نہیں کہ اس نظام کے ہوتے ہوئے احتساب کا عمل جاری رہ سکے اور یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب اپنے سفر کا آغاز کر سکے صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام ملک کی بائیس کروڑ عوام نے تحریک انصاف کی حکومت کو منتخب اس بنیاد پر کیا ہے کہ ملک سے کرپشن و بدعنوانی اور سٹیٹس کو کا خاتمہ کر کے ایسے مہذب معاشرے کی بنیاد رکھی جائے جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ طریقے کیساتھ مساوی ہو تاکہ ملک کے تمام افراد ملکی ترقی و خوشحالی کے قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔

جمہوری ریاست میں روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت کی سہولیات بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام نے اس عوام پر دنیا کی زمینی طاقتور قوتوں کے اس نظام کو مسلط کر دیا جسے دنیا آئی ایم ایف‘ورلڈ بنک کے نام سے جانتی ہے جو دنیا کی معیشت کے فیصلے ان مالیاتی اداروں کے ذریعے کرتی ہیں کہ کن ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے اور کس ملک کی معیشت کو اتنا عدم استحکام دینا ہے کہ اس ملک کی عوام روٹی کے نوالے بھی گن گن کر کھائے صیہونی قوتوں کے اس مشن کو غریب ممالک کے امیر سیاستدان اور حکمران بخوبی مکمل کرتے ہیں اور انہی نالائق اور نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے غریب ممالک کی دولت کو امیر ممالک ڈس کر اپنی معیشت کو مضبوط بنا رہے ہیں بیرون ممالک جائیدادیں‘رنگین بودوباش‘لگژری گاڑیاں‘عالییشان محلات‘وی وی آئی پی پروٹوکول چیخ چیخ کر پاکستان کی جمہوری سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملنے والی ترقی و خوشحالی کا نقارہ بجا رہے ہیں ۔

حالات کی کروٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ حالات اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ چل کر ہی یہ ملک ترقی کر سکتا ہے عمران خان ملک کے اندرونی و بیرونی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر اب عمران خان نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آنیوالے دن طے کر دینگے ۔اپوزیشن کو چاہیے کہ ملکی سلامتی و بقاء اور معیشت کو استحکام دینے اور ملک و ملت کی بہتری کے لئے حکومت کا ساتھ دے عمران خان کو موقع دیں کیونکہ جمہوریت سے بڑا کوئی انتقام نہیں حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دینے سے جمہوریت کو خطرہ لا حق نہیں ہوگا بلکہ جمہوریت مضبوط ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :