کارکردگی‘چیلنجز اورحکومت!

منگل 8 ستمبر 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

عمران خان کی سیاسی جدوجہد دو دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط ہے عمران خان کے جدوجہد کی کہانی بطور کرکٹراور کینسر جیسے جدید ہسپتال کا قیام‘ نمل کالج اور دیگر فلاحی منصوبوں پر کامیابی کے تسلسل سے عبارت ہے اور انہی اجتماعی منصوبوں کی کامیابیوں نے انہیں عوام میں بے حد مقبول بنایا۔سیاسی جدوجہد کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی بنیاد سے لے کر اقتدار کے زینے پر قدم رکھنے تک کی کہانی بھی جہاں نشیب و فراز سے جڑی ہے وہیں قومی سیاست کے جہاندیدہ اور منجھے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی انہوں نے کارنر کر کے اپنی کامیابی اور مقبولیت کا لوہا منوایا۔

2018ء کے عام انتخابات میں ان کی جماعت کی کامیابی کو اپوزیشن اور ناقدین آج بھی ان کے اقتدار کو ایک ”سیلکیٹڈ“ کا نام دیتے ہیں پاکستان کی سیاست سیلیکٹڈ اور الیکیٹڈ کے دائرے میں ہی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اورسر زمین پاکستان کی سیاست ہمیشہ الزامات کے پلڑے میں ہی تلتی رہی۔

(جاری ہے)

المیہ ہے ہر منتخب حکمران نے اپنی حکومت کو عوام کی طاقت کا سر چشمہ گردانا لیکن عوام کو جمہوری لوازمات سے محروم ہی رکھا جس کے باعث آج بھی عام عوام انسانی بنیادی ضروریات زندگی سے تہی دست ہے۔

2013ء سے 2018ء کے الیکشن تک وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے راہنماؤں نے ماضی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لئے رکھا اور اپنی جماعت تحریک انصاف کو عوام کے سامنے ایسے انداز میں پیش کیا کہ تحریک انصاف اقتدار میں آتے ہی 90روز میں ملک کے حالات تبدیل کر کے مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ دے گئی لیکن دو سال کی حکومتی کارکردگی کا خلاصہ یہی ہے کہ وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ ہمارے پاس مسائل حل کرنے کے لئے جادو کی چھڑی نہیں ۔

حکومتوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعین کرنا از حد دشوار ضرور ہے لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ اعداد و شمار کی روشنی میں معشیت اور حکومتی امور (گورننس) کا پیمانہ کیا ہے اگر تو معشیت کو دوام مل رہا ہے اور حکومتی ا قدامات سے ملک و ملت درست سمت کی جانب گامزن ہے تو پھر یقیننا حکومت کی کارکردگی کو کامیابی کے پلڑے میں تولا جا سکتا ہے اگر معشیت اور حکومتی اقدامات توازن سے عاری ہوں تو اسے ایک ناکام حکومت گردانا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت کی گورننس کا پیمانہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک عام آدمی کے مسائل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو اپنے معاشی ابتر حالات سے دلبرداشتہ ہو چکا ہے۔دنیا میں جمہوری حکومتوں کا قیام کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات کے ذریعے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کیا جائے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن اس ملک کی عوام کا معیار زندگی ہوتا ہے۔

ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کو ملکی قرضوں یا ضساروں سے غرض نہیں عام آدمی حکومت کی کارکردگی کو صرف اس نظر سے دیکھتا ہے کہ آٹے چینی کی قیمت کیا ہے اور روزگار کے مواقع کتنے ہیں اور ہمیشہ ملک کی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی آئندہ انتخابات کے لئے ان کی کامیابی و ناکامی کا پیمانہ طے کرتی ہے۔حکومت کی کارکردگی کا زائچہ کیا ہے حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ سال 21.2020کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد چالیس لاکھ کی حد عبور کر کے ساٹھ لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہو‘جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ نہ ہو تو یہ بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو جب اقتدار ملا تو فارن ایکسچینج کابحران اور ایکسٹرنل اکاؤنٹ دباؤ کا شکار تھا لیکن حکومت نے اس بحران سے نمٹنے میں کافی وقت لگا دیا معاشی ٹیم میں تبدیلیاں‘آئی ایم ایف سے پروگرام لینے کے لئے بروقت فیصلے نہ کرنا ملک کی معاشی صورتحال کو مستحکم نہ کر سکی اگر معاشی بہتری کی امید کو تقویت ملنا شروع ہوئی تو ساتھ ہی کورونا آفت نے معشیت کو ایسے تلپٹ کر کے رکھ دیا کہ عام آدمی کے روزگار پر گرہ لگ گئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مارچ 2018ء میں مجموعی قرضوں کی لاگت 230کھرب24ارب روپے تھی جو بڑھ کر مارچ 2020ء میں 314کھرب 52ارب روپے ہو گئی جبکہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں یہ قرضہ 159کھرب 86ارب روپے تھا۔ان حالات میں معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لئے قرضوں کا حصول ضروری تھا اور پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لئے حکومت کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

معشیت کے حوالے سے اگر حکومت نے اچھا کام کیا ہے تو وہ بیرونی تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے انیس ارب بیس کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لئے استعمال کی گئی۔عمران خان نے کرپشن اور بد عنوانیوں میں ملوث افراد کیخلاف اعلان جنگ کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں دو سال سے احتساب کا عمل جاری ہے لیکن اس احتساب پر بھی ماضی کی حکومتوں کے طرز احتساب پر اٹھنے والا سوالیہ نشان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کئے جانیوالے احتساب کی شفافیت کے سامنے بھی فل سٹاپ لگا ئے کھڑاہے۔

ایک بڑی کابینہ کی حامل حکومت کی دو سالہ کارکردگی سے کنفیوژن اور افراتفری کا تاثر نمایاں ہے بلا امتیاز احتساب‘مضبوظ معشیت اور گڈ گورننس کی دو سالہ ناکامی نے حکومت کے آئندہ تین سال کے لئے کھٹن چیلنجز کھڑے کر دئیے ہیں۔حکومت کی دو سالہ کارکردگی کے اس بیانیے میں تو کوئی دم خم نہیں رہا کہ ہم تو پچھلی حکومتوں کا بویا کاٹ رہے ہیں دو سال کی حکومتی کارکردگی ملک کو درست سمت میں لیجانے کے لئے کافی سمجھی جاتی ہے بہر حال عام آدمی کو کمر شکن مہنگائی‘غربت و بے روزگاری سے نجات دلانے میں موجودہ حکومت اب تک ناکام ہے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے آئندہ تین سال بھی بحرانوں سے نبرد آزما ہوتے گذر جائیں گے۔

ملکی معشیت کی مضبوطی‘عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانا‘غربت و بیروزگاری کا خاتمہ‘بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کا بلا امتیاز احتساب‘سٹیٹس کو ‘کرپشن اور مافیا کا خاتمہ جیسے دلنشین نعروں کی تکمیل کے ساتھ موجودہ حکومت کو کھٹن مراحل طے کر کے ہی نئے پاکستان میں داخل ہونا پڑے گا ۔یہ اس عمران خان کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کا امتحان ہے جس نے بطور کرکٹر بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال‘نمل کالج اور دیگر فلاحی منصوبوں کو اپنے اخلاص اور آہنی ارادوں سے تکمیل کے مراحل تک پہنچایا لیکن سیاست ایسی خار دار پگڈنڈی ہے جس پر چلنے والے دعویدار ہیں کہ سیاست کرکٹ کا میدان نہیں بائیس سالہ جدوجہد کرنے والے کا اقتدار ملک کو سیاسی و معاشی استحکام دے سکے گا یا پھر اس کھلاڑی کے نئے پاکستان بنانے کا دعویٰ بھی ماضی کی سیاست کی تقلید کا حصہ بن کر پرانے پاکستان میں دفن ہو جائے گا موجودہ حکومت کی آئندہ تین سالہ کارکردگی پر کامیابی یا ناکامی کی گرہ لگانے کا فیصلہ آنیوالے وقت کے ہاتھ ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :