طبی سہولتوں کی مخدوش صورت حال ریاست کی ناکامی

بدھ 11 ستمبر 2019

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

ہسپتالوں میں طبی سہولتوں کی مخدوش صورت حال ریاست کی ناکامی ہے اور لوگوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر نہیں ریاست ناکام کیوں یہ ایک ایساسوال ہے جو پاکستان کی اکثریتی کم آمدنی والی آ بادی کی آ واز ہے مگرعام طبقہ کے مریضوں کی پکار پر حکمرانوں کی سوچ بچارنہ ہونے کے برابر ہیں سرکار ی ہسپتالوں میں بھی اوپر کے طبقہ کو ہی ریلیف ملتا ہے عام طبقہ کے مریضوں کے ساتھ رویہ اکثر اوقات ناقابل برداشت دیکھنے کو ملتا ہے اور یہ طبقہ بلا آخر وسائل نہ ہونے اور اپنی مالی مجبویوں کے باعث عطائیوں سے علاج کروانے پر مجبور ہے یہ مریض سسک سسک کر بستر مرگ پر پہنچ کر دم توڑجاتے ہیں ہسپتالوں کی صورت پرعام طبقہ نے جواظہار کیا ہے درست اور عام طبقہ کی آ واز ہے یہ کتنے دکھ کی بات ہے سولہ سالہ معافیہ نے سات سال قبل بیماری کے باعث تعلیم سے محروم ہو کر علاج کی بہتر سہولت نہ ہونے کے باعث معذور ہو گئی کیامیں اپاہج ہی زندگی گزاروں گی یہ پکارمعافیہ کی ہے چھ سالوں میں بہتر علاج کی سہولت میسر نہ آنے کے باعث شدید دردکرب میں دن رات گزرے اور ٹانگ کی ہڈی گل کر ختم ہو گئی تعلیم بھی ادھوری چھوڑنی پڑی والدخاندان کاواحد کفیل جوکہ امام مسجد تھا بیماری نے اس کوبھی نہ چھوڑااور سات بیٹیوں کا باپ بیروزہوگیا جبکہ حافظ محمد ارشد نے تنگدستی اور بیماری میں پانچ بیٹیوں کی شادیاں کردیں مگرمعافیہ کا علاج کروانے میں گھرکی تمام پونچی اورقرض خرچ سے اس خاندان کی مشکلات بڑھ گئیں سابق وزیر اعلے پنجاب میاں شہبازشریف کی ہدایات پر ڈسڑکٹ ہسپتال حافظ آبادمیں بھی چند روز علاج کے بعد ٹرخا کر فارغ کر دیا گیا معافیہ نے بتایا اس ٹیکنالوجی کے دور میں علاج ممکن ہے مگر وسائل نہ ہونے اور غربت کے باعث میرا علاج نہ ہو سکا امیر زادی ہوتی تو اپاہچ ہونے سے بچ جاتی افسوس تو اس بات پر ہے سیاسی جلسوں جلوسوں پر کروڑوں کے اخراجات کئے جاتے ہیں یہ لوگ ٹھاٹ کی زندگیاں گزارتے آرہے ہیں مگر غریبوں کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں کیا ہم انسان نہ ہیں جبکہ مغرب میں انسان تو کیا جانوروں کے علاج میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی افغانستان میں دوران جنگ چڑیاگھر میں بیمار شیروں ریچھ اور دیگر جانوروں کے علاج کے لئے یورپ سے ٹیم پہنچ جاتی ہے مگر یہاں غربت موت بن جاتی ہے اس پاکستانی لڑکی پکار یہی ہے مجھے اپاہچ ہونے سے بچایا جائے بیرون ملک علاج کی سہولت دی جائے کم از کم اپنے پاوٴں پر چل سکوں اقتدارکی خاظراربوں روپے خرچ کرنے والوں کو یہ رقم دکھی انسانیت کے علاج ومعالج پر خرچ کرنے چاہیے میری اس پکا رکو کون سنے گااندرون ملک اور بیرون ملک لوگو ں سے اس نے اپیل کی مگر علاج نہ ہوسکا بیس سالہ خوبرو نوجوان بشیر ارائیں کو کینسر کر موذی مرض نے نگل لیا اس ماں اور بھائی بھی بیمارتھے یہ خاندان کا واحد کفیل علاج کرانے کیلئے تما م بونچھی فروخت کر کے معروف ہسپتال سے بھاری ٹیسٹ کروائے جب علاج کیلئے بھاری اخراجات بتائے گئے علاج کے بغیر گھر آ گیا یہ معافیہ اور بشیر ہی نہیں ان جیسے بے شمار عام طبقہ کے مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں جانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ہسپتالوں والوں سرکارکی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے ہسپتال بنا رکھے ہیں اور مریضوں کو پرائیویٹ علاج کی جانب راغب کر کے اپنی کمائی کرتے ہیں تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال پنڈی بھٹیاں میں ایمر جنسی مریضوں کو رات کے وقت اکثر اوقات ایٹنڈ کرنے والا ہی کوئی بھی نہیں ہوتا اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کی شکایات عام ہیں اموات بھی معمول بنی ہوئی ہیں اور ایمرجنسی کے مریضوں کو ریفر کرنے کو معمول بنا ہوا ہے اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث اکثر مریض الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں جبکہ ان ہسپتالوں کی خوبصورت بلڈنگ اور دیگر سہولتوں کے ساتھ ڈاکٹروں اور سٹاف کا رویہ بھی بہتر دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ ان کی تنخواہیں اور ادویات لیبارٹری ٹیسٹ عوام کے سرمایہ سے ہی ادا ہوتے ہیں تو پھر عوام کو سہولتوں سے کیوں محرومی یہ سوال ماضی سے چلا آ رہا ہے مگرعلاج ومعالج کی بہتری کی پکار پر کان نہیں دھر ے جا رہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :