اپوزیشن حکومت ایک پیج پر آئیں

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

 حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی ماحول میں گرما گرمی ،تلخ رویوں اور الزامات کی بوچھاڑ کو دیکھ کر ہر محب وطن یہ سوال کرتا ہے اس لڑائی جھگڑوں میں کیا ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکے گا۔ ایوانوں میں قانون سازی کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی پر وقت کا ضیاع کیا یہ ہی ملک وقوم کی خدمت ہے اگر کوئی کرپٹ ہے عدالتیں موجود ہیں ایسے لو گوں کا مقابلہ عدالتی سطح پر کریں اور کرپشن کی حوصلہ شکنی جاری رکھیں اور عدالتی فیصلوں پر اعتماد کریں اور اپنی تمام تر توانائی ملک و قوم کو بحرانو ں سے نکالنے کیلئے صرف کریں اسی صورت میں ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے گا عوام کا یہ سوال بھی بجا ہے جو بھی حکومت آ ئی اس نے خزانہ خالی کی چیخ و پکار کی اور کشکول کا دامن نہ چھوڑاجبکہ یہی نعرہ بلند کیا ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھلائیں گے مگر ہمیشہ بات بر عکس نکلی اور ہر حکومت نے کشکول کا سہارہ لیا زندہ قوم ہونے کے دعوی کو بھی نہ دیکھا اور دنیاعالم میں ملک وقوم کو رسوا کرتے آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 ابھی بھی ایسی صورت حال ہے ایک بار پھر ہم نے کشکول پھلا رکھا ہے اور ہم دوسروں کے سہاروں پر چلنا چاہیے ہیں جبکہ ایوانوں اور میڈیا میں تلخ صورت سے ہم دنیا عالم میں بد نامی کا باعث بنے ہوئے ہیں ایسی صورت حال کا ذمہ دار کون ہیں جن نے قوم و ملک کو بھاری قرضوں کی لپیٹ میں پھنسا کر رکھ دیا ہے اور اب مہنگائی نے عوام کو پریشانیوں سے دوچار کر کے رکھا دیا ہے اور عوام کو یہ تسلیاں ماضی کی طرح دی جا رہی ہیں۔

بجلی گیس پٹرولیم منصوعات میں بار بار اضافہ سمیت ٹیکسیز کا عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں ہو گا ایسا سفید جھوٹ سن سن کے عوام کے کان پک گئے ہیں غور کریں جب بجلی گیس پٹرولیم منصوعات میں بار بار اضافہ ہوتا ہے اس کا بوجھ برائے راست صارفین پر ہوتا ہے اور اشیاء کی قیمتیں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں  فیکٹری ملز ملکان ا سٹاکسٹ دوکاندار سمیت تما م اخراجات بمعہ ٹیکسیز ڈال کر قیمت صارفین سے وصول کرتے آ رہے ہیں اور پھر یہ دعوے کرتے ہیں  فلاں کمپنی فیکٹری کارخانے دار کاروباری افراد اتنا ٹیکس دیتے ہیں ان کے تمام اخراجات ٹیکسیز بجلی گیس اور پٹرولیم کے اخراجات تو صارفین کو ہی ادا کرنے پڑتے ہیں جس کے باعث متوسط عام تنخواہ دار مزدور طبقہ تو مہنگائی میں پستا آ رہا ہے طاقتور امیر طبقہ کو کوئی فرق نہیں پرتا۔

 ضرورت اس بات کی ہے اگر ہم اسی مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر آ کر قومی سوچ کو لیکر قوم کے ساتھ کے ساتھ کشکول کو ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کا عہد کرلینا چاہیے اور ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس سے ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ملکی منصوعات کو فروغ دینے اور صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور زراعت کی ہر ممکن حوصلہ افزائی اور قدرتی خزانوں کو نکالنے کیلئے مثبت سوچ کی جانب قدم جمانے اور گھریلوصنعتوں پر توجہ دیکر ترقی کا سفر جاری رکھنا چاہیے جبکہ اللہ تعالی نے پاکستان کی سر زمین میں خزانے چھپا رکھے ہیں اور ملک ان سے اور افرادی قوت سے مالا مال ہے تو پھر ہم غیر ملکی منصوعات پر انحصار کرتے آ رہے ہیں مگر ملک وقوم کی بھلائی اسی میں ہے ہم سادگی اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مثبت سوچ کے ساتھ اس بات کا عہد کر لیں ہم نے کسی امداد پر ہر گز انحصار نہیں کرنا تو پھر قوم بھی روکھی سوکھی کھا کر مہنگائی کو بھی برداشت کرے گی چند سالوں ملک وقوم کاسفر بہتری کی جانب رواں دواں ہوسکے کا ابھی بھی ہم نے سوچ نہ بدیلی تو تبدیلی کا خواب پورا نہ ہو سکے کا ہم کشکول کے ہمیشہ کیلئے محتاج ہو کر رہ جائیں گے کرپٹ لوگوں کی جنگ عدالتوں میں لڑی جائے اور اس سلسلہ میں قانون سازی کی جائے اور سخت سزائیں رکھی جائیں اور ایسے عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے تو بہتر ہو گا بر حال یہ وقت مل جل ملک وقوم کو قرضوں سے نجات دلانے کا ہے ہم سب کو قومی سوچ کے ساتھ کام کرنا ہوگا یہ ہی زندہ قوم کا راستہ ہے ورنہ آئندہ نسل معاف نہیں کرے گی اس کیلئے حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لیکر اور عوامی اعتماد کو لیکر اقدامات کرنے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :