جائیں تو جائیں کہاں ؟

جمعہ 24 جولائی 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

پنجاب میں قیادت کو تبدیل کرنے کی بازگشت نئی نہیں ہے یہ وہ کچھڑی ہے جو گذشتہ دو برسوں سے پک رہی ہے البتہ اب چہ مگوئیاں طول پکڑ چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی زورو شور سے تبدیلی کے حوالے سے بحث و مباحثے جاری ہیں یقینا ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا مگر دنیائے سیاست میں ایسی ریشہ دوانیاں دباؤ ڈالنے اور عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے کی جاتی ہیں بادی النظر میں ایسا ہوچکا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تجربہ کر لیاگیا ہے کہ سیکھنے والے سیکھ نہیں پائے اور سکھانے والے تنگ آچکے ہیں گوکہ وزیراعظم نے ہر بارتبدیلی سے متعلقہ افواہووں کی سخت تردید کی اور ببانگ دہل کہتے رہے ہیں کہ تخت لاہور کوکوئی خطرہ نہیں کیونکہ عثمان بزدار جلد ثابت کر دیں گے کہ وہ وسیم اکرم پلس ہیں مگر دو سالہ ٹریننگ کے باوجود نہ میدان انکے ہاتھ آسکا نہ کسی بھی قسم کی کوئی بہتری نظر آسکی۔

(جاری ہے)

اس تمام شور و غوغاں کی حکومتی ذرائع کھل کر تائید کررہے ہیں اور نہ ہی تردید کر رہے ہیں ایسے میں عوام کو یہ تاثر جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کی بزداریاں پنجاب کے بازیگروں کے سامنے کارگر ثابت نہیں ہو ئیں بلکہ گورننس پر بھی بہت سے سوالیہ نشان لگ چکے ہیں ویسے بھی سیاسی حکمت عملی اور بصیرت کے بغیر حکومت نہیں کی جا سکتی ہر کوئی جان چکا ہے کہ پنجاب کی وزارت کسی بھرم کے تحت تھی وگرنہ یہ تعیناتی نا مناسب تھی حالانکہ اتحادیوں اورساتھیوں کی جانب سے بسا اوقات عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا مگر وزیراعظم ڈٹ کر کہتے تھے کہ ہم نے سٹیٹس کو توڑا ہے اس لئے برداشت نہیں ہورہا عثمان بزدار تشہیر نہیں کرتا جبکہ 38 ترجمان ان کی ترجمانی پر معمور رہے تو مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا لیکن خدا لگتی کہوں تو جن مافیاز کے سامنے خود وزیراعظم بے بس ہیں وہاں معمولی ویژن کا صوبائی سربراہ کہاں ٹھہر سکتا ہے
اگر پنجاب حکومت کی مجموعی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں بیوروکریسی اور عہدوں میں ہر روزمسلسل تبادلے اور تبدیلیاں نظر آرہی ہیں ۔

عوامی مسائل کی بابت کیا بات کریں اور کس سے کریں جبکہ بار بار تبدیلیوں سے ا نتظامی امور بری طرح متاثر ہیں ۔چند ہم پیالہ اور ہم نوالہ رفقاء کے سواکسی کو ٹھہرنے نہیں دیا جاتا بلکہ قریبی رفیق (جہانگیر ترین ) نے سر عام کہا اب وزیراعظم سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے ۔خیر ! ہمیں تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ مبینہ کر پشن الزام کے باوجود محفوظ راستہ بھی فراہم کیا گیا اور تحقیقی و تفتیشی معاملات میں تذکرہ بھی سنائی نہیں دیتا جو کہ تبدیلی سرکار کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جو برسر الزام آتا ہے اسے چند ماہ منظر سے ہٹا دیا جاتا کچھ عرصہ بعد پہلے سے بھی زیادہ دلکش مقام سے نواز دیا جاتا ہے حالانکہ نعرہ یہ ہے کہ ”میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑونگا “مگر حالات یہ ہیں کہ چار بار چیف سیکر یٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس تبدیل کیے جا چکے ہیں اور پنجاب ہائیر ایجوکیشن کے 9سیکریٹریز اور محکمہ آب پاشی کے گیارہ سیکریٹریز تبدیل جا چکے ہیں جبکہ وزارتوں میں توتین تین دفعہ تبدیلیاں کی گئی ہیں یہاں تک کہ ترجمان بھی مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن وزیران و مشیران اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج کے باوجودعوامی ریلیف کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں کیاگیا جسے بیان کیا جا سکے اس صورتحال کے باوجود خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ سرعام کہا جا رہا ہے کہ مرے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے تو چوائس تو صفوں میں موجود ہے اور کچھ ما ہ پہلے ن لیگ نے ق لیگ کو پیش کش بھی کی تھی تاکہ بزدار حکومت کو گرایا جا سکے مگر تب یہ بات نہیں مانی گئی تھی مگر دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہر حکومتی غلط اقدام کی مذمت ق لیگ کی طرف سے سب سے پہلے منظر عام پر آجاتی ہے ویسے بھی ق لیگ وہ واحد جماعت ہے جو سیاسی کاروبار دور اندیشی سے کرتی ہے ایسے میں آپ جو فہرست بنا ئے بیٹھے ہیں اس میں ترمیم کر لیجیے کیونکہ اگر مائنس کی بات آئی اورعوامی پسند اور اہلیت کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا تو قرعہ چودھری برادران کے نام نکل سکتا ہے اور اگر ہمیشہ کی طرح ذاتی پسندو نا پسند اور تخت لاہور کو مٹھی میں رکھنے کی سوچ غالب آگئی تو پھر اہل کیا اور نا اہل کیا بلکہ اگر ڈگری جعلی بھی ہے تو بھی چلے گا مگر ایسا زیادہ دیر نہیں چلے گا بلکہ صرف بندے راضی کرنے والی بات ہوگی المختصرگڈ گورننس کا فقدان اور ٹیم کا میلان کھل کر سامنے آچکا ہے ایسے میں ہر سطح پر تبدیلی وقت کی ضرورت بن چکی ہے محض پسند و نا پسند تک بات نہیں رہی بلکہ پورا صوبہ داؤ پر لگا ہوا ہے اس بارے سنجیدگی اور دور اندیشی سے سوچنے کی ضرورت ہے
بہر حال کروناکے پھیلاؤ ، مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ، پٹرولیم مصنوعات میں زیادتی کی حد تک اضافے ،یوٹیلیٹی بل جات و جائز و ناجائز ٹیکسسز نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے اور خبر گر م ہے کہ شوگر مافیا کیساتھ تنازع میں با لآخر پنجاب حکومت بے بس ہو چکی ہے اور چینی کے 50 کلو تھیلے کی قیمت میں 300روپے کا ہوش رُبا اضافہ ہو چکا ہے اور روٹی کہ ساری جنگ جس کی ہے وہ کیسے سستی ہو کہ آٹا تو ویسے ہی دستیاب نہیں رہا لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہے الٹا ایسے منصوبے متعارف کروائے جارہے ہیں جو اعصابی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں نیا ڈرامہ شروع کیا گیا ہے کہ 10 مرلے کے گھر پر صرف 7% سود ادا کرنا پڑے گا ۔

کس قدر افسوسناک ہے کہ ایک طرف تو ریاست مدینہ کا نعرہ لگانا دوسری طرف فخریہ سود کی بات کرنا حالانکہ کونسا ایسا بینک ہوگا جو غریب آدمی کو لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ بغیر کسی ضمانت کے قرضہ دے گا کہ وہ پلاٹ خرید کر گھر بنا سکے افسوس عوام کہنے پر مجبور ہیں کہ ستم گر تو بہت ہیں مگر چارہ گر کوئی نہیں مزیدچیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دئیے ہیں اس نے انتظامی امور کی بے ضابطگیوں اور ناقص کارکردگی پر مہر ثبت کر دی ہے جسٹس قاسم خان کا کہنا تھا کہ ”شور مچا ہوا ہے کہ غیر منتخب افراد حکومت چلا رہے ہیں جو عوام کا نہیں سوچتے ،عوامی نمائندوں کی سوچ عوام کی فلاح ہے اور جو عوامی نمائندہ نہیں ان کی سوچ عوام اور ریاست کا مفاد نہیں بلکہ صرف کمپنی کا مفاد ہے ۔

“ یقینا مجموعی طور پرغیر یقینی حالات لمحہ فکریہ ہیں مگر عوام جائیں تو
 جائیں کہاں ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :