عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی !

جمعرات 4 مارچ 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

ہواؤں میں پھیلی پھولوں کی خوشبو اور آسمان کی وسعتوں میں اڑتے پنچھیوں کی چہچہاہٹ موسم بہار کا مژدہ سنا رہی ہے‘پہاڑوں پر برف پگھلنے لگی ہے اور آفتاب کی تپش بتا رہی ہے کہ جاڑے کے سرد و برفاب لمحے تپتی دوپہروں اورسر مئی شاموں میں ڈھلنے والے ہیں یعنی موسم بدل رہا ہے‘ موسم کب ٹھہرتے ہیں تبھی تو کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ”میں آخر کونسا موسم تمہارے نام کر دیتا ۔

۔ یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی “ بدقسمتی یہ ہے کہ قدرتی موسم تو اپنے وقت پر بدل ہی جاتے ہیں مگر ہمارے سیاسی منظر نامے اور سیاسی رنگ بازوں کے بدلنے کا کوئی وقت نہیں ہے نشہ اقتدار ہی ایسا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا منصب دار بھی بہک جاتا ہے اور سب کچھ بھلا دیتا ہے ۔۔بھلا ہی تو دیا ہے تبھی تو ضمنی انتخابات میں جیت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور اب جبکہ حقیقت کھل چکی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ ”میں آدمی ہوں‘کوئی فرشتہ نہیں حضور ۔

(جاری ہے)

۔میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا “عجیب چور بازار ی اور نوسر بازی ہے کہ پورا حلقہ گولیوں کی آواز وں سے گونجتا رہا اور اندھی گولیوں نے دو گھروں کے چراغ بھی بجھا دئیے مگر کسی قسم کا کوئی مناسب ایکشن بروقت نہیں لیا گیااور نہ ہی پولیس نے اپنا فرض کماحقہ ادا کیا لیکن تعجب کیسا یہ تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے اور خان صاحب نے اسی انتخابی نظام کو بدلنے کا دعوی کیا تھا اور اپنے منشور کا حصہ بنا کر وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخابی سیاست کی بجائے ملکی سیاست کریں گے اور شفاف انتخابی نظام متعارف کروائیں گے مگر اب شاید انھیں بھی لگتا ہے کہ بازار سیاست کا کاروبار یونہی چلا کرتا ہے اور جمہوریت کا بانکپن بھی یونہی نکھرتا ہے کہ جیسے تیسے جیت کو یقینی بنایا جائے ۔

اسی طوطا چشمی کی وجہ سے پورا ملک افراتفری کا شکار ہو چکا ہے ‘ہر سمت بس فریب کا بازار گرم ہے اور کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے البتہ سیاسی باووں کا بول بالا ہے ان کی پیشین گوئیاں بھی درست ثابت ہو تی ہیں اور فریاد زنجیر عدل بھی ہلا دیتی ہے
جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور پورے حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 19 فروری کو مذکورہ حلقے میں سازگار انتخابی ماحول فراہم نہیں کیا گیا‘ فریقین کی طرف سے لڑائی جھگڑے اور فائرنگ کے ذریعے خوف وہراس پھیلا کر ووٹر کوڈرایا گیا تاکہ من مانی کی جا سکے اس لیے انتخابات دوبارہ ہونگے حالانکہ سینٹ انتخابات کی طرح ڈسکہ معرکہ بھی بلا مقابلہ جیتا جا سکتا تھا ”ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ ۔

۔دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا“ دوبارہ الیکشن کے فیصلے پرن لیگ پھولے نہیں سما رہی کیونکہ ضمنی انتخابات سٹنگ گورنمنٹ جیتا کرتی تھی مگر اب نتائج توقع کے برخلاف آرہے ہیں جو کہ حکومت وقت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ! ویسے ن لیگی قیادت نے پہلے ہی پیشین گوئی کر دی تھی کہ ہم سرخرو ہونگے‘ ہمارے قائدین بہت جلد الزامات سے بری ہو کر واپس آئیں گے اور میدان سیاست کی آخری اننگ کھیلیں گے تو حمزہ شہباز بھی ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور اب بس میاں شہباز شریف کی رہائی کی خبر آنی باقی ہے یقینا سیاسی گہما گہمی میں مزید اضافہ ہو جائے گا تبھی تو تبدیلی سرکار بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ حالات کہہ رہے ہیں ”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے“ کچھ ہمارے میڈیائی باووں کا فالنامہ بھی گردش میں ہے جس میں تحریک انصاف کے اقتدار کا آفتاب لب بام آتا نظر آ رہاہے یہ تو ہونا تھا کیونکہ گذشتہ تین برس میں تبدیلی سرکار نے کچھ بھی ڈیلیور نہیں کیا اور اب کروناوائرس کے باعث کاروبار بند ہونے کیوجہ سے دنیا بھر میں مقیم کئی ہزر پاکستانی نوکریوں سے فارغ کر دئیے گئے ہیں جو کہ واپس آچکے ہیں یعنی اگر ترجیحی بنیادوں پر روزگار کی فراہمی کے لیے مثبت حکمت عملیاں نہ اپنائی گئیں تو ملک کو خانہ جنگی کی طرف جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ پہلے ہی بیروزگاری اور مہنگائی تمام تاریخی ریکارڈ توڑ چکی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کیوجہ سے جرائم بڑھ رہے ہیں لیکن تبدیلی سرکار کرسی بچاؤ مہم میں مصروف ہے اور ارد گرد بیٹھنے والے اپنے رشتے داروں کو جعلی میرٹ بنا کر عہدے بانٹنے اور سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر عوامی رائے ہموار کرنے میں مصروف ہیں جس میں عوام کو با ور کروایا جا رہاہے کہ آنے والے تمام الیکشنز میں گیارہ جماعتیں مشترکہ امیدوار کھڑے کر کے تحریک انصاف کا مقابلہ کریں گی ‘خان صاحب تنہا ان ملک خوروں سے لڑیں گے اور عوامی طاقت سے جیتیں گے ایسے خوش آمدیوں نے ہی ملک و قوم کا بیڑا غرق کر رکھا ہے کیونکہ خان صاحب کے پاس ایسی کونسی گیدڑ سینگی یا کار کردگی ہے جس کی بنیاد پر ایسا دعوی کیا جائے ماسوائے اس کے کہ اب کہ موسم بدلا ہے مگر نہ وہ رنگ ہیں نہ دلوں میں پہلے سے جذبے ہیں بلکہ سبھی کو اپنی بقا کی فکر ہے جو ٹیکسوں سے بچ گیا تھا وہ کرونا میں خرچ ہوگیا اور کمانے کے لیے بھی طاقت کی ضرورت ہے جو کہ روٹی سے آتی ہے جبکہ حکومت وقت نے تو روٹی بھی اتنی مہنگی کر دی ہے کہ مزدور اب دو وقت نہیں بلکہ ایک وقت کی روٹی کھاتا ہے اس لیے مجھے کہنے دیجیے کہ انتخابی نتائج بے شک بدل جائیں مگر عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی اس حالت کو بدلنے کے لیے استعماری اور من مانی نظام کو بدلنا ہوگا جسے ہم بدلنا نہیں چاہتے اگر چاہتے تو آج پوری قوم مطالبہ کرتی کہ الیکشن کا دوبارہ انعقاد بلاشبہ احسن اقدام ہے مگر متنازعہ بنانے والوں ‘ بے ضابطگی کرنے والوں اور قوم کا پیسہ برباد کرنے والوں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں اور اپنے فرائض دیانتداری سے ادا نہ کرنے والے منصب داروں کو فوری طور پر بر طرف کیا جائے مگر الٹا عدالت سیاسی ٹاک شوز پر لگی ہوئی ہے اور عوام پھر کسی مسیحا کی راہ دیکھ رہے ہیں تبھی تو دل کہتا ہے وہ موسم جا چکا جس میں پرندے چہچہاتے تھے ۔

۔اب ان پیڑوں کی شاخوں پر سکوت شام لکھ دینا “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :