ہاتھ آنکھوں پر رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا!

ہفتہ 24 اپریل 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک نہیں بلکہ دو پاکستان بن چکے ہیں۔ ایک غریبوں کا اور دوسرا امیروں کا ہے اوربوجہ عدم مساوات معیشت اس مقام پر آچکی ہے کہ کسی بھی قسم کا خون آشام تصادم ہو سکتا ہے ۔کیونکہ عدم مساوات صرف آمدنی اور دولت تک ہی محدود نہیں رہابلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں غریب کی دنیا الگ اور امیر کی دنیا الگ بن چکی ہے۔

خواندگی کی سطح ہو ‘صحت کے ثمرات یا پھر رہن سہن کے معیارات ،انتہائی امیر اور انتہائی غریب دونوں ہی اپنے رہن سہن اور طرز زندگی کے لحاظ سے دو مختلف دنیاؤں کے باسی معلوم ہوتے ہیں جس کا احساس دونوں کو ہے یہی وجہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثل قانون رائج ہے جس سے غریب پس چکا ہے لیکن یہ پستی بغاوت کو جنم دے چکی ہے جس کا ادراک کرنے سے حکمران قاصر ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ عالمی ترقیاتی ادارے نے چند روز پیشتر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا امیر ترین طبقہ ملکی آمدنی کے 50 فیصد پر کنٹرول رکھتا ہے جبکہ غریب ترین طبقے کے حصے میں ملکی آمدنی کا صرف سات فیصد آتا ہے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غریب طبقے میں انسانی ترقی کی شرح بہت کم ہے جبکہ امیر طبقے میں بہت زیادہ ہے بایں وجہ امیر اور غریب میں بہت زیادہ طبقاتی فرق بڑھتا جا رہا ہے زیادہ پریشان کن یہ ہے کہ مندرجہ بالا رپورٹ میں عدم مساوات بنانے اوراسے تقویت دینے کے اہم محرکات اشرافیہ کی اجارہ داری ، طاقت کا بے دریغ استعمال اور حکومتی پالیسیوں کو قرار دیا گیا ہے ۔

اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے نے بھی خبردار کیا ہے کہ آئندہ سال بہتری کی کوئی امید نہیں بلکہ مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا ۔مذکورہ رپورٹ پر ارباب اختیار کا ردعمل دیکھ کر کر ہمیں تو سیف الدین سیف یاد آگئے :”ہم کوئے ملامت سے نکل آئے ہیں یارو ۔۔ اب نہ چاک رہا ہے نہ گریباں رہا ہے “۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران جماعت نے جو نعرہ سب سے زیادہ لگایا وہ دو نہیں ایک پاکستان کا تھا درحقیقت یہی نعرہ بس نیا تھا باقی سیاسی چہرے ،نعرے ،دعوے اور وعدے وہی گھسے پٹے تھے یہی وجہ ہے کہ عوام جھانسے میں آگئے کہ اب کہ شاید سیاست کو خدمت سمجھا جائے گا اور غریب و امیر کا فرق مٹ ٍجائیگا، انصاف کی بلاتفریق فراہمی ہوگی، غریب بھوکا نہیں سوئے گا ، غریب اور امیر کے بچے ایک جیسے سکولوں میں پڑھیں گے ،روزگار اور نوکریوں کی اتنی فراوانی ہوگی کہ دیگر ممالک سے لوگ ان کے حصول کے لیے پاکستان آئیں گے،منہ زور مہنگائی کا منہ توڑ دیا جائے گا اور ارزاں نرخوں پر ہر چیز دستیاب ہوگی ، بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں میں مناسب ریٹ مقرر کئے جائیں گے، نیکی کا بول بالا ہوگا ۔

المختصر عوام سمجھے کہ راوی چین ہی چین لکھے گا اورواقعی ریاست مدینہ قائم ہو جائے گی مگراس کے برعکس پہلے ہی برس مہنگائی اور جائز و ناجائز ٹیکسز نے عام آدمی کی کمر توڑ دی اور دوسرے برس کرونا وبا کے پھیلاؤ نے رہی سہی کسر پوری کر دی حالانکہ مذکورہ حالات خطرے کی گھنٹی تھے اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے بھی خبردار کیاجا رہا تھا کہ کرونانے پوری دنیا کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر جہاں طبی نظام کمزور ہے اگر بروقت اور مناسب حکمت عملیاں طے نہ کی گئیں تو تین تہائی آبادی معاشی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتی ہے اور یہ صورتحال ان ممالک کے لیے زیادہ پریشان کن ہوسکتی ہے جن کی ترجیحات میں صحت و تعلیم شامل نہیں اور ایسا ہی ہوا ہے ہمارے حکمرانوں نے موجودہ خطرات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا ۔

پہلے بھی حفاظتی تدابیر میں دیر کر دی گئی اور اب جبکہ ویکسین کے حصول کے لیے تمام ممالک کوشاں تھے تو ہم فری ویکسین کا انتظار کرتے رہے اور پورا ملک تیسری لہر کی لپیٹ میںآ گیا اور اب اموات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جسکا حکومت کے پاس واحد حل لاک ڈاؤن ہے جس کا مطلب عام آدمی کو بھوکا ہی نہیں بلکہ سسکا سسکا کر مارنا ہے کیونکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ویسے ہی اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ عام آدمی خرید نہیں سکتا اور بے حسی دیکھیے کہ پھیپھڑے متاثر ہونے پر لگایا جانے والا انجکشن Remdesivir جس کی افادیت نناوے فیصد مسلمہ تھی اس کی خریداری بند کر دی گئی ہے کیونکہ وہ مہنگا ہوگیا ہے اور آکسیجن سلنڈروں کی صورتحال بھی تشویشناک ہے تبھی تو اہل دل کہہ رہے ہیں اگر یہ انجکشن مہنگا ہوگیا تھا تو کچھ عرصے کے لیے شاہانہ پروٹوکول اور اللوں تللوں کو بند کر دیا جاتا مگر خریداری پر پابندی نہ لگائی جاتی تو کتنی جانیں بچ جاتیں لیکن غریب کے لیے کون سوچتا ؟
مان لیجیے کہ اعدادو شمار کو نظر انداز کرنے سے خفت تو مٹ سکتی ہے لیکن حقائق تلخ ہیں کہ ہیومین ڈویویلپمنٹ انڈیکس کی نئی درجہ بندی میں پاکستان ایک سال کے دوران مزید دو پوائنٹس نیچے آچکا ہے کبھی ہمیں گرے لسٹ میں اور کبھی ریڈ لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے مگر ہمیں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے فرصت نہیں ملتی بایں وجہ جگ ہنسائی اورامتیازی سلوک ہمارا مقدر بن چکا ہے ۔

اس لیے ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھ نہیں سکتے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم کو شریک کیوں نہیں کیا گیا ؟ امریکی موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی کے دورہ ایشیا میں پاکستان کا نام شامل کیوں نہیں ہے ؟ برطانوی حکومت کے بڑھتے کرونا کیسسز کی بنیاد پر پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کیوں کیا جارہا ہے ؟لیکن ہم نے اپنے عوامی اور ملکی حلقوں کو ادھر ادھر کی سنا کر مطمئن کردیا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے کرونا ریلیف کا پھر مطالبہ کر دیا ہے چہ جائیکہ ہم امتیازی رویوں پرآواز بلند کرتے مگر ہم نے تکیہ ہی کشکول پر رکھا ہے،تو گلے میں لٹکانے والوں کو وہی ملتا ہے صاحب جو ہمیں مل رہا ہے پھر بھی کہنا کہ پاکستان بہت اوپر جارہا ہے اس پر ہم اتنا ہی کہیں گے کہ :ہاتھ آنکھوں پر رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا ۔

۔دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا ۔
ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :