ملکی معیشت اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں !

منگل 15 جون 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک عام آدمی یہ سوال کر سکتا تھاکہ انھوں نے یہ کرتا کیسے بنا لیا جبکہ حصے میں آئی چادر سے یہ کُرتا نہیں بن سکتا تھا تو ان کو یہ وضاحت اپنے بیٹے سے دلوانا پڑی تھی کہ انھیں ان کے بیٹے نے اپنی چادر گفٹ کی تھی تو یہ کرتا بنا تھا۔کیا موجودہ دور میں کوئی عام آدمی کسی بھی حکمران سے کوئی ایسا سوال کر سکتا ہے ؟ یقینا۔

۔نہیں!البتہ حال ہی میں فن لینڈ کی وزیراعظم کو اپنے خاندان کے ناشتے کی مد میں ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے سبسٹڈی حاصل کر نے پر عوام کی طرف سے شدید تنقید کا سامناکرنا پڑا بالآخر وزیراعظم نے سارے پیسے عوامی خزانے میں جمع کروانے کا اعلان کر دیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی معیشت مضبوط ہے کیونکہ ٹیکسوں کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی خورد برد کرنے کی کوشش کرتا ہے توسزا پاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں زمیندار ‘ صنعتکار اور بڑے افسر مراعات یافتہ طبقہ ہیں انھوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا ہے ۔

(جاری ہے)

منتخب ہوکراور عہدے پاکرٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں‘ عوام سے فاصلے پر رہتے ہیں اور ان کے مسائل پر غور ہی نہیں کرتے بلکہ رعایا اور غلام سمجھتے ہیں اور بجٹ بھی یہی بیوروکریسی بناتی ہے پھر عوام دوست بجٹ کیسے بن سکتا ہے ؟مزید ستم یہ کہ ہر مرتبہ مہنگائی کا رونا رو کر وزراء اور دیگر اعلی عہدے داران تنخواہوں میں اضافہ کروا لیتے ہیں جبکہ وہ درپردہ کئی دیگر کاروبار چلا رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں یہ صریحاً نا انصافی ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا
 بات تو ساری خوف آخرت کی ہے جیسا کہ ایک رات سلطان محمود غزنوی رات کے وقت معمول کے مطابق گشت پر تھے کہ ایک تندور کے پاس کسی شخص کو سویا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر پوچھا کہ وہ کون ہے ؟جواب میں اس شخص نے بتایا کہ وہ غریب مزدور ہے دن بھر مزدوری کرتا ہے اور رات کو اس تندور کے پاس آکر سو جاتا ہے سلطان نے پوچھا :” اس سردی میں اس کی رات کیسے گزرتی ہے“؟ تو اس نے جواب میں جو کہا اس نے سلطان کو ہلا کر رکھ دیا ۔

مزدور نے کہا :” جناب ! نصف رات آپ کے انداز میں اور نصف آپ سے اچھے انداز میں گزرتی ہے ۔“سلطان نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟ مزدور نے کہا :” جب تک تندور گرم رہتا ہے تو آپ کی جیسی نیند سے لطف اندوز ہوتا ہوں‘ جب تندور ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو اٹھ کے عبادت شروع کر دیتا ہوں جو کہ آپ کے مقابلے میں وقت کا بہترین استعمال ہے اور خدا سے پوچھتا ہوں کہ اس نے ہم پر غیر منصف بادشاہ کیوں مسلط کیا‘ یقیناًروز محشر اس کا جواب مل جائے گا!“تو سلطان نے ایسے انتظامات کئے کہ مثالیں رقم ہوئیں ۔

تاہم جہاں تک ارباب اقتدار کی کار کردگی اور صلاحیت کی بات ہے تو ایک عام آدمی بھی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ حکومتی عہدے داران کو اپوزیشن والوں نے مکمل طور پر کنفیوز اور بے بس کر رکھا ہے کیونکہ اپوزیشن اراکین اور قائدین پر مختلف اداروں اور عدالتوں میں ایسے ایسے سنگین جرائم کے تحت مقدمات زیر سماعت ہیں کہ اگر ان مقدمات کی روح کے مطابق فیصلے آجائیں تو مبینہ ملزمان اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائیں اس سے بحث نہیں کہ وہ مقدمات کس حد تک سچے یا جھوٹے ہیں کیونکہ اس کا فیصلہ تو بالآخرجب متعلقہ عدالت دے گی تو پتہ چلے گا بایں وجہ سزاؤں اور برے انجام سے بچنے کے لیے اپوزیشن ارکان ہر ادارے اور متعلقہ ا فراد کو ہر قیمت اور ہر حربے سے خریدنے یا اپنی حمایت میں کرنے کی پوری کوشش میں لگے رہتے ہیں حتی کہ بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ میڈیا بھی اپنی اپنی وابستگی کے تحت دن رات لوگوں کی رائے بدلنے میں مصروف رہتا ہے‘ ایک عام آدمی کو کوئی پتہ نہیں چلتا کہ میڈیا پرسن حقائق بیان کر رہا ہے یا گمراہی پھیلا رہا ہے بلکہ یہ بھی پتہ نہیں چلتا بعض میڈیا پرسنز جب اپوزیشن کے بیانیے کی سر عام حمایت کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت نہ جانے ملک و ملت کی کونسی خدمت کر رہے ہوتے ہیں لیکن ایک محب وطن کو دکھ ضرور ہوتا ہے جب وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اب بعض میڈیا پرسن بھی حق و صداقت سے کام نہیں لے رہے ایسے حالات میں جبکہ حکومتی لوگوں کی مت مار دی گئی ہو اور وہ خود بھی ایک کھچڑی کی طرح پکی ہوئی ہنڈیا کے مصداق ہوں تو ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام کی معیشت سے جڑے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بنانے کی کوشش کریں گے اور اپوزیشن سے کیا امید کریں جبکہ اس حد تک منافقت عام ہے اگر حکومت کچھ کرتی ہے تو اپوزیشن کہتی ہے کہ دیکھو یہ کیوں کر رہی ہے اور جب حکومت کچھ نہیں کرتی تو پھر اپوزیشن کہتی ہے کہ کچھ بھی نہیں کر رہی ایسے میں اس ملک و ملت کا اللہ حافظ ہے ۔

حکومت اور اپوزیشن اپنی بقاء کی اورمال بنانے والے صحافی اپنے مفادات اور معاہدوں کے مطابق ایک علیحدہ ہی جنگ لڑ رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں یہ بیانیہ عام ہورہا ہے کہ” ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو“ جب اپنے ہی ملک کے لوگ اپنے ملکی اداروں کے وقار اور ان کی شان نظر انداز کر کے دن رات پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں تو ایسی ریاستیں امن و سلامتی کے قیام اور آئین و قانون کی پاسداری میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں حالنکہ سارا مسئلہ تو عدلیہ کی ناکامیوں کا ہے جسے کوئی زیر بحث نہیں لاتا اور باقی ہر انتہائی اقدام اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں جب کوئی کام ٹیبل ٹاک یا کسی مناسب فورم پر ہو سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے تو پھر کونسے ایسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کی بنا پر کچھ لوگ ہر وقت ملکی بدنامی پر آمادہ و تیار رہتے ہیں اوربرملا کہتے ہیں کہ ملک میں جو اچھا کام ہوتاہے وہ خود کرتے ہیں اور اگر کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو اس کے پیچھے ملک کے حساس ادارے ہوتے ہیں ہاں ۔

۔اگر کسی انکوئری یا تفتیش کے نتیجے میں جو بھی کوئی گنہگار نکلے تو اس خاص کے خلاف مناسب کاروائی کے لیے فورم موجود ہیں گھٹیا پراپیگنڈے ملکی مسائل کا حل نہیں ہوتے اس سے ملک کے بد خواہوں کو شہہ ملتی ہے اور ملک کا ہر شہری بدنام اور رسوا ہوتا ہے ۔ملک کو ایسے لوگوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے جو ملک کی نیک نامی اور اچھی شہرت کا باعث بنیں ورنہ بدنام کرنے کے لیے تو سارے ہی دشمن اور ان کی ایجنسیاں کسی بھی حد تک جانے کیلیے تیار رہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :