اک ستم اور میری جان ۔۔۔۔۔۔۔

بدھ 28 جولائی 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 آزاد کشمیر میں پاکستان کے زیر انتظام عام انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسے امیدوار میدان میں اتارے ہیں جو حقیقی معنوں میں سیاسی کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ فی زمانہ یہی مانا جاتا ہے کہ پرانے سیاسی کاریگر اپنے اثرو رسوخ اور شعبدہ بازیوں کیوجہ سے ہاری بازی بھی جیت سکتے ہیں مگر وہ سب ایسے ہیں کہ پہلے دن سے ہی ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں اور وفاداریاں تبدیلی کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔

تحریک انصاف پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے جو کہ اب برسر اقتدار جماعت بھی ہے جبکہ آزاد کشمیر میں پہلے ن لیگ کا راج تھا ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ وفاق میں جس کی حکومت ہو اسی پارٹی کو کامیاب کروا کر گلگت بلتستان اور کشمیر میں حکومت سازی کروائی جاتی تھی۔

(جاری ہے)

اب کہ تبدیلی سرکار کی متنازع کار کردگی کیوجہ سے شبہ ہے کہ شاید اب تاریخ بدل جائے کچھ ناقدین نے کشمیر انتخابات کو حکومت اور اپوزیشن کی مقبولیت کا امتحان بنا دیاہے یہی وجہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور خریدو فروخت عروج پر پہنچ چکی ہے جیت کے لیے سبھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر شفاف انتخابات یقینی بنانے کے دعوے ایک بار پھر دھرے کے دھرے نظر آتے ہیں پہلے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور کو انتخابی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کشمیر الیکشن کمیشن نے آزاد کشمیر کی حدود سے سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے جلسے جلوسوں اور تقریروں پر پابندی عائد کر دی گئی پھر شہباز گل نے بیان داغ دیا کہ لیگی امیدوار ہم سے رابطے میں ہیں یقینادانشور جانتے ہیں کہ رابطے یونہی نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاسی وفاداریاں یونہی تبدیل ہوتی ہیں ۔

دھن دولت کی طاقت سے لڑے جانے والے انتخابات نے سیاسی نظریات اور عوامی رائے کا گلہ گھونٹ رکھا ہے اور نظریہ ضرورت ہی سکہ رائج الوقت بن چکا ہے لہذا اگر کسی سیاستدان کو یہ کہتے سنیں کہ اسے جیت کی نہیں بلکہ ملک و قوم کے حالات بہترین کرنے کی فکر ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ اپنے حالات بدلنے کے لیے سیاسی میدان میں اتر چکا ہے
 افسوس یہ ہے کہ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ ایسے بیانات بالآخر الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان بن جاتے ہیں جبکہ سبھی جانتے ہیں ”جس کی تیغ اس کی دیگ “ کے مصداق وفاق میں جس کی حکومت ہے وہی آزاد کشمیر میں حکومت بناتا آیا ہے البتہ اگر کشمیریوں نے نئے پاکستان کا مشاہدہ اچھی طرح کیا ہے تو نتائج کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں باقی اپوزیشن کی طرف سے قبل از وقت دھاندلی کا شور مچانابھی سیاسی ا سٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے’( میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو “ جہاں اپنا فائدہ نہ ہو وہاں دھاندلی کا شور مچا دینا۔

بلکہ اب تو انکے دھاندلی واویلے پر کئی قسم کے لطیفے اور باتیں مشہور ہوچکی ہیں کہتے ہیں کہ ایک سیاستدان ہسپتال کے احاطے میں ٹہل رہا تھا کہ نرس نے آکر خبر دی کہ آپ کے تین جڑواں بچے پیدا ہوئے ہیں “ سیاستدان خیالات سے چونکا اور جلدی سے بولا ”یہ نہیں ہوسکتا ۔دوبارہ گنتی کراؤ “۔تو جو ہارے گا وہ واویلا کرے گا مگر جیت اسی کی ہوگی جوڑ توڑ اور ووٹ خریدنے کا ماہر ہوگا ۔


سوال تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی موجودہ رولنگ پارٹی مسلم لیگ ن جس میں میاں شہباز شریف منظر سے غائب ہیں اور مریم نواز ہی قیادت کرتی دکھائی دے رہی ہیں ‘کیا مریم نواز کی قیادت میں اقتدار قائم رکھ پائے گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تون لیگ کا 2023 کے انتخابات کیطرف پہلا قدم ہوگا اور ثابت ہو جائیگا کہ اگر کوئی جماعت تحریک انصاف سے ٹکرا سکتی ہے تو وہ ن لیگ ہی ہے۔

لیکن اہم یہ ہے کہ جو جماعت بھی جیتے گی اسے وفاق میں قائم حکومت سے تعاون کی بہت ضرورت ہوگی تو فیڈریشن کے ساتھ اس جماعت کا تعلق کیسا ہوگا اور کشمیریوں کو کیا ملے گا ؟جہاں تک دیگر جماعتوں کی بات ہے تو اس انتخابی جنگ میں جماعت اسلامی کا کردار روایتی رہا ہے کہ ”چلو تم ادھر کو ،ہوا ہو جدھر کی “جماعت اسلامی کے اہم رہنما تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دست بردار ہوچکے ہیں باقی پیپلز پارٹی مکمل کوششوں میں ہے کہ ثابت کردے کہ وہ سندھ تک محدود نہیں ہے سو آزاد کشمیر انتخابات سیاست کو ایک نیا موڑ دے سکتے ہیں
بحر کیف بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ تبدیلی سرکار آزاد کشمیر کی جیت کا سہر اپنے سر پر سجانے کی تگ و دومیں اس قدر مصروف ہے کہ عید الاضحی بھی حکومتی لفاظی کی نظر ہوگئی اور عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملا ۔

لوڈشیڈنگ کے عذاب اور کمر توڑ مہنگائی میں عوام سسکتے رہے جبکہ ذمہ داران چین کی بانسری بجاتے رہے۔میں نے سنا تھا کہ انسان جس طرح جنگل کے خونخوار درندوں کو قبضہ میں کر لیتا ہے اسی طرح وہ انسانی بستی کے مردم نما بھیڑیوں پر بھی قابو پاسکتا ہے مگر شرط یہ ہے وہ خدا کی دی ہوئی عقل کو مناسب طریقے سے استعمال کرے ۔ایسے اقدام کرے جو کہ اس کے مثبت مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ممدو معاون ثابت ہوں لیکن یاد رہے کہ غلط اقدام سے بہتر ہے آدمی کوئی عمل نہ کرے کیونکہ کسی بھی عمل کی کامیابی بہت سے دوسرے اسباب کی موافقت پر ٹکی ہوتی ہے اگر دوسرے اسباب موافق نہ ہوں گے تو آپ کی تمام حکمت عملیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ تبدیلی سرکار نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں جو بھی حکمت عملی اختیار کی اس کے نتائج سنگین نکلے اور عوام کو بھگتنا پڑے بلکہ عوامی فریاد پر جب بھی ایکشن لیا گیا وہ بھی سیاہ تاریخ چھوڑ گیا اور اب یہ عالم ہے کہ عوام بر ملا کہہ رہے ہیں کہ” اک ستم اور میری جان ابھی جان باقی ہے“۔

۔نئے پاکستان کا خواب عوام کو لہو رلا گیا ہے تو اب نئے کشمیر کا خواب کشمیریوں کو کیا دن دکھائے گا مگر یاد رہے کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی دیکر آزماتا ہے اور کبھی لیکر آزماتا ہے اور ہواؤں کا رخ بدلنے میں ایک پل لگتا ہے اس لیے اگر ایسا ہے کہ عوام آپ پر اعتماد کر رہے ہیں تو سوچیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :