متنازعہ اور بلیک بلسٹرارطغرل

جمعہ 24 جولائی 2020

Saif Awan

سیف اعوان

کسی بھی فلم،ڈرامے یا تحریک کو اگر سپر ہٹ یا بلیک بلسٹربنانا ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت بڑھانی ہے تو سب سے پہلے اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے ۔فلم ڈرائریکٹر اور اس کے اداکاروں کی جانب سے روزانہ پریس کانفرسز،سوشل میڈیا کا سہارا اور عوامی مقامات پر فلم کی کاسٹ عام شہریوں کے درمیان پہنچ جاتی ہے ۔جبکہ اس کو ہٹ کرنے کا دوسرا طریقہ بھی متعارف کرایا جا چکا ہے کہ فلم کو عوام میں پذیرائی دلانی ہے تو اس کوریلیز سے قبل ہی متنازعہ کردو اور فلم کی سٹوری ایسی بنادو کہ ایک مخصوص طبقہ اس کیخلاف ہو جائے اور ایک بڑا طبقہ فلم کے حق میں بول اٹھے۔

ایسی ہی ایک مثال گزشتہ سال بھارت میں فلم پدمادت کی صورت میں سامنے آئی ۔بھارتی فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی متنازعہ سٹوری فلمیں بنانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

فلم پدماوت کی ریلیز سے قبل ہی اس کو متنازعہ بنادیا گیا ۔فلم میں جنگجو علاؤ الدین خلجی کو مہارانی پدماوتی کے عاشق کے روپ میں دیکھا گیا یہ بات ہندوں کی اکثریت کو پسند نہ آئی پھر فلم کے نام پر بھی ہنگامہ کھڑا ہوگیا سنجے لیلا کو فلم کا اصل نام ”پدماوتی“ تبدیل کرکے ”پدماوت“ رکھنا پڑا۔

اسی طرح کی ایک مثال ہالی وڈ میں بھی کچھ عرصہ پہلے سامنے آئی ۔ہالی وڈ نے مولانا جلال الدین رومی پر ایک فلم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ترکی بھی اس میں معاونت کیلئے تیار ہو گیا اس فلم میں مرکزی کردار ”جلال الدین رومی کا کردار“مشہور زمانہ ہالی وڈ کے سپر سٹار رینالڈو ڈی کیپرو نے ادا کرنا تھا لیکن امریکہ اور یورب میں ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ مولانا جلال الدین رومی ایشین تھے اور کوئی سفید چمڑی والا گورا یہ کردار کیسے ادا کرسکتا ہے ۔

لہذا ہالی وڈ نے اس فلم پر مزید کام روک دیا۔
اسلامی دنیا میں آج کل ترک ڈرامے ارطغرل غازی کا بہت چرچہ ہورہا ہے۔اس ڈرامے میں ترک صدر رجب طیب ایردوان بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ارطغرل ایک تاریخی شخصیت تھااسی کے بیٹے عثمان اول نے سلطنت عثمانیہ ”خلافت عثمانیہ“کی بنیاد رکھی تھی۔ترکمانستان جو ترکوں کا اصل ملک ہے وہاں آج بھی ارطغرل کے نام پر سکے جاری ہوتے ہیں۔

ارطغرل کے موت کے 750سال بعد اس کے چرچے پوری دنیا میں ہورہے ہیں۔ترکی نے ارطغرل کی زندگی پر مبنی ڈرامہ سیریل ”ڈیلش ارطغرل“بنایا ہے ۔اس ڈرامے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب تک اس کے پانچ سیزن بن چکے ہیں۔کچھ ممالک میں یہ بھی بحث چل رہی ہے کہ ارطغرل ایک افسانہ ہے یا حقیقت ،ارطغرل ڈامہ کے ہیرو نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ارطغرل کی ساری تاریخ صرف سات صفحات پر مشتمل ہے اور ہمارے پاس ارطغرل کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

ارطغرل کے بارے میں معلومات اس لیے بہت کم ہیں کہ ان کی وقات کے سو سال کے بعد عثمانیوں کی تاریخ لکھنے کے کام کا آغاز ہوا تھا۔لیکن ارطغرل کی زندگی پر مبنی سیزن نے تاریخ میں دوبارہ ارطغرل کے کردار کو زندہ کردیا ہے۔2014میں شروع ہونے والا یہ سیزن اب تک جاری ہے اس کے پانچ سیزن بن چکے ہیں اور اس کی اقساط سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔اس سیزن کا موازنہ ہالی وڈ کے مشہور زمانہ سیزن ”گیم آف تھرون“ سے کیا جارہا ہے۔

اس سیزن کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر پہلی مرتبہ مسلمانوں کا ایک اچھا تاثر پیش کیا گیا ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان سب سے بڑے اس سیزن کے پرموٹر ہیں ۔ترک صدر اکثر اوقات اس سیزن کے سیٹ پر خود پہنچ جاتے ہیں اور سیزن کے کرداروں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ترک صدر اس سیزن کو ہر زبان میں
 نشر کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔

آج کل پاکستان میں بھی یہ سیزن بہت پسند کیا جا رہا ہے ۔پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے کچھ لوگ اس پر تنقید بھی کررہے ہیں اور کچھ اس کی تعریفیں بھی کررہے ہیں جبکہ عوام میں اس سیزن کو خوب پذیرائی مل رہی ہے۔اس سیزن کو مقبوضہ کشمیر میں بھی بہت پسند کیا جا رہا ہے۔وینز ویلا کے صدر بھی اس ڈرامے کے سیٹ کا دورہ کرچکے ہیں وہ بھی اطغرل کے بہت مداح ہیں۔

دوسری طرف عرب ممالک اور مصراس ڈرامے کے سخت خلاف ہیں۔عرب ممالک کا خیال ہے کہ ترک صدر اس ڈرامے کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کی بحالی کیلئے پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔سعودی عرب اور مصر اس ڈرامے پر باقاعدہ پابندی عائد کرچکے ہیں جس کو ترکی سیاسی کاروائی قراردیتا ہے۔مصر کے علماء نے تو اس ڈرامے کیخلاف فتویٰ بھی جاری کردیا ہے ۔اپنے فتویٰ میں مصری علماء نے لکھا ہے کہ ” ترک صدر طیب ایردوان عرب ممالک پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کررہے ہیں۔

عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کی بحالی کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔19اپریل 2020کو عرب ممالک اور ترکی نے ایک دوسرے کی نیو ویب سائٹس بھی بلاک کردی ۔ترک صدر سلطنت عثمانیہ بحال کرسکتے ہیں یا نہیں یہ وقت بتائے گا لیکن ڈرامہ ارطغرل ایک بہترین سیزن ہے اور کہانی ہے جس کو بیشتر مسلم ممالک میں پذیرائی مل رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :