زبان بندی

اتوار 13 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

”سری والا عمل برائے زبان بندی“اگر آپ کسی بھی شخص کی زبان بندی کرنا چاہتے ہو۔ جس کی زبان درازی سے آپ تنگ آ چکے ہو تو آپ سری والا عمل کیجئے انشاء اللہ مخالفین کی زبان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گی۔یہ عمل انتہائی موثر اور لاجواب ہے۔ طریقہ کار۔۔ایک عدد نقش کالی سیاہی سے اسم،، الہٰی یاقابض،، کا مثلث خاکی سے بنائیں۔اس نقش کے نیچے مذکورہ طلسم میں مخالفین کے نام معہ والدہ کا لکھیں،اور بکری کی سری خرید کر اس کے زبان کے نیچے یہ نقش رکھدے،اور سیاہ ڈوری سے منہ بند کر کے سیاہ کلر کے کپڑے میں لپیٹ کر کسی دریایا نہر میں میں پھینک ڈالیں۔

ماہر امراض روحانی مولانا غلام محمد نقشبندی۔یہ اشتہار 2017کو مجھے کسی نامعلوم شخص کی جانب سے فیس بک پر بھیجا گیا گزشتہ رات میں اچانک اپنے پرانے میسجز چیک کررہا تھا مجھے یہ میسج مل گیا ۔

(جاری ہے)

مجھے اس وقت حیرت بھی ہوئی کہ یار لوگ کس طرح یہ سب کام کرلیتے ہیں اور لوگوں کو بیوقوف بھی بناتے ہیں ۔لیکن اس سب سے بڑھ کر قابل حیرت یہ بات ہے کہ یہ اشتہار خان اعظم تک کیسے پہنچ گیا ۔

جہنوں نے اس اشتہا پر من و عن عمل کیا اور اپنے مقاصد بھی حاصل کررہے ہیں۔عامل اور پیروں کے ایک دوسروں کے اکثر رابطے بھی ہوتے ہیں ۔شاید اس عامل نے یہ اشتہار ملتان کے پیر اور پاکپتن کے پیر کو بھی بھیج دیاہو اور ان سے ہوتا ہوا یہ اشتہا ر خان اعظم تک بھی پہنچ گیا ہوگا۔ویسے ضرورت ایجاد کی ماں ہے ۔مشکل وقت میں انسان ہر اپنی پریشانیاں اور مشکلات دور کرنے کیلئے ہر طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے شاید کہی سے کامیابی مل جائے۔


خان اعظم نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اس اشتہار کو پڑا اور اپنے ”موکل“ کوفوری اس پر کام کرنے کی ہدایت کردی ۔موکل نے جیسے جیسے کام شروع کیا اس کے نتائج بھی حاصل ہونا شروع ہو گئے ۔موکل نے کہا سب سے پہلے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف اور اس کی بیٹی کی زباں بندی کی جائے ۔خان اعظم نے موکل کے حکم کی تعمیل کی اور فورا سے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کی بیٹی کی زبان بندی کردی اور میڈیا پر مکمل سینسر کردیا وہ اس کے والد کی زبان بندی تو کر نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اس وقت جیل میں تھا ۔

لیکن اس حریف کی بیٹی نے سینسر شپ کی پروہ کیے بغیر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور اپنی تمام سیاسی سر گرمیوں کو قوم تک پہنچانے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیا کیونکہ سوشل میڈیا اس دور کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔جب وہ بڑے قافلوں کے ساتھ مختلف شہروں میں نکل پڑی تو خان اعظم اور موکل دونوں کے ہوش اڑ گئے ۔او بھائی یہ کیا ہو گیا ہم نے تو اس کی زبان بندی کی اس کو سینسر کیا لیکن یہ مزید مشہور ہوتی جارہی ہے اور عوام میں اس کی پذیرائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

پھر ایک دن موکل نے کہا خان اعظم اس کو فوری گرفتار کراؤ ۔خان اعظم نے حکم کی تعمیل کی اور نیا حکم نامہ جاری کردیا ۔مریم نواز حسب معمول اپنے والد نوازشریف سے ملاقات کرنے کورٹ لکھپت جیل جاتی ہیں اور وہاں سے ان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔اس بڑی گرفتاری کے بعد موکل اور خان اعظم کی کچھ جان میں جان آتی ہے۔پھر مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کے ریکارڈ شدہ اورآن ایئر ہوتے انٹرویو سینسر کردیے جاتے ہیں ۔

سیاسی حریفوں کی جانب سے کچھ سکون ملاتو سماجی کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے مسئلے نے سر اٹھالیا پھر کچھ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور سماجی کارکنوں کو اٹھالیا گیا اور کچھ کی زبان بندی کردی گئی۔
موکل اور خان اعظم نے کچھ سکھ کا سانس لیا تو ایک اور نئی لہر نے ان کیخلاف آواز اٹھانا شروع کردی اور یہ آواز اس مرتبہ سیاسی کارکنوں کی تھی ۔

انہی جیسے سیاسی کارکنوں کی سپورٹ کے ساتھ خان اعظم وزیراعظم ہاؤس میں پہنچے اور پاکپتن کے پیر خانے تک پہنچے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پسند نا پسند میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اب نہ موکل سیاسی کارکنوں کو برداشت کررہا تھا اور نہ خان اعظم ۔لہذا موکل نے خان اعظم سے کہا یہ سیاسی کارکن بہت پریشان کررہے ہیں ان کی زبان بندی کی جائے۔خان اعظم نے پھر ایک مرتبہ حکم نامہ جاری کیا اور اس مرتبہ یہ حکم پاناما لیکس کی جی آئی ٹی کے سابق سربراہ اور موجودہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء کی جانب ارسال کیا گیا۔

اس حکم نے کی سب سے پہلے زیر عتاب مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی ایڈووکیٹ مونا جاوید آئی۔ایف آئی اے نے ان کو 25اگست 2020کو طلبی کانوٹس بھیجا ۔ایڈووکیٹ مونا جاوید اپنے والدہ جو ان کی وکیل بھی تھیں ان کے ہمراہ ایف آئی اے کے دفتر پہنچتی ہیں تو وہاں ان کا استقبال چار لوگوں کی ٹیم کرتی ہے ۔ایف آئی اے کے افسر مونا جاوید کو پوچھتے ہیں آپ عمران خان کی حکومت کیخلاف ٹویٹس کیوں کرتی ہیں آپ کی ہر ٹویٹ حکومت کے مخالفت کیو ں ہوتی ہے ۔

افسر نے کہا آپ کو معلوم ہے آپ کو چار چار ایجنسیاں واچ کررہی ہیں ۔آپ ثبوت کے بغیر فوج اور حکومت کیخلاف کیسے ٹویٹس کرسکتی ہیں اس کی آپ کو کس نے اجازت دی ہے ۔مونا جاوید سے ان کی والدہ کے سامنے ایف آئی اے کے افسر نے معافی نامہ لکھوایا اور پھر ان کی جاں بخشی ہوئی۔ایک دوسرا طلبی کا نوٹس 29اگست 2020کومسلم لیگ(ن) پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری کے میڈیا کواڈی نیٹر طاہر مغل کو ملتا ہے۔

طاہر مغل ایف آئی اے اسلام کے دفتر پہنچتے ہیں تو ان کو ایف آئی اے انسویسٹی گیشن کے افسر پہلا سوال پوچھتے ہیں ۔آپ فوج کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟طاہر مغل نے بتایا ہے کہ جو فوج ہمارے ملک کی سرحدوں پر ہماری حافظ کیلئے کھڑی ہوتی ہے وہ ہمارے سر کا تاج ہے ہم نے کبھی پاک فوج کے متعلق برے الفاظ کا استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ فوج ہمارے ملک کی محافظ ہے۔

ہاں اگر اپنے ملک کے عوام کے حقوق کیلئے احتجاج کرنا گناہ ہے تو میں گناہ گار ہوں،اگر آٹا،چینی ،پیٹرول اور گھی کی قیمتوں کیخلاف آواز اٹھانا گناہ ہے تو پھر میں گناہ گار ہوں اور پھر مجھے بھی اندر بند کردیں۔میں میاں نوازشریف کا سپاہی ہوں اور پارٹی کاعہدیدار ہوں ۔میرا تعلق پر امن جماعت سے ہے اور میں ایک محب وطن شہری ہوں اور عوام کے حقوق کیلئے احتجاج کرنا اور آواز اٹھانا میرا آئینی و قانونی حق ہے اور میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔

الحمد اللہ میں نے ہر جگہ اپنے پارٹی قائدین کا دفاع کیا اور کسی جگہ لچک تک نہیں دیکھائی۔میں نے آج تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی وجہ سے مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔یہ دو سیاسی کارکنوں کی ایف آئی اے میں طلبی کی کہانیاں ہیں ۔
سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔کیونکہ خان اعظم نے بیس سال جدوجہد ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے طور پر کی ہے۔

لہذا ان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سیاسی کارکنوں کو اس طرح ہراساں کریں ۔سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا چہرہ ہوتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کی اصل طاقت بھی سیاسی کارکن کی ہوتے ہیں ۔خان اعظم صاحب اگر آج آپ کی جماعت کی حکومت ہے تو کل آپ لوگ اپوزیشن میں بھی ہو سکتے ہیں لہذا سیاسی کارکنوں کی تنقید کو براداشت کریں ۔اگر کل کو آپ کے کارکنوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا تو یقینا آپ تنہا رہ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :