کیوبا کاانقلاب ۔ قسط نمبر 1

منگل 10 نومبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

اس نے صرف 32سال کی عمر میں کیوبا میں انقلاب برپا کیا ۔وہ جب دارالحکومت ہوانا میں اپنی وکٹری تقریر کررہا تھا تو اچانک ایک فاختہ اس کے کندے پر آکے بیٹھ گئی۔تقریر سننے والے ہجوم کیلئے یہ ایک غیبی اشارہ تھا کہ خدا نے اس شخص کو ہماری قیادت کیلئے چن لیا ہے۔وہ جب تک زندہ رہا کیوبا کے عوام کا ہیرو رہا ۔یہ تھے کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب کے بانی فیدل کاسترو جن کو آج بھی کیوبا کے عوام اپنا مسیحا،بانی ،رہنما اور ہیرو مانتے ہیں۔

1940کو امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کو کیوبا سے ایک خط ملا جس میں ان کو تیسری مرتبہ امریکہ کے صدر بننے پر مبارک بات دی گئی۔اس خط لکھنے والے نے روز ویلٹ سے ایک معصومانہ درخواست بھی کی کہ مجھے دس ڈالر کا نوٹ بھیج دیں کیونکہ میں نے کبھی دس ڈالر کا نوٹ نہیں دیکھا۔

(جاری ہے)

وائٹ ہاؤس نے اس دس سالہ لڑکے کو شکریہ کا جوابی خط تو لکھا لیکن دس ڈالر کا نوٹ نہیں دیا۔

فیدل کاسترو مشرقی کیوبا کے ایک بڑے جاگیردار کا بیٹا تھا اس کے والد کے پاس پچیس ہزار ایکڑ زمین تھی۔کاستر اپنے گھر سے دس کلو میٹر دور ہوانا میں پڑھنے آتا تھا۔اس کی پڑھائی سے زیادہ دلچسپی سیاست میں تھی اس کی بڑی وجہ یونیورسٹی آف ہوانا تھی۔کاسترو نے یہاں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخلہ لیا لیکن حالات اس کو سیاست کا سبق پڑھارہے تھے۔

یہ یونیورسٹی طلبہ تنظیموں کاگڑھ تھی ۔طلبہ کے درمیان سیاسی مباحثے معمول کی بات تھی۔فیدل کاسترو بھی طلبہ سیاست کا حصہ بن گیا اب وہ باقاعدگی سے طلبہ کی میٹنگز میں بھی جاتا اور خطاب کرنے لگ گیا۔وہ اب آہستہ آہستہ ایک زبردست مقرر بھی بن گیا ۔1947میں اس نے کیوبا کی سیاسی جماعت آرتھو ڈوک میں شمولیت اختیار کرلی۔یہ جماعت ملک میں مضبوط اور با اختیار حکومت بنانے اور غریبوں کے مسائل حل کرنے کے نعرے پر سیاست کررہی تھی۔

اگلے سال کاسترو ایک طلبہ کانفرنس میں شرکت کیلئے کولمبیا گیا ۔وہ وہاں پہنچاہی تھا کہ ایک مزدور لیڈر کو گولی مار کر قتل کردیا گیا اس قتل کیخلاف کولمبیا کے دارالحکومت بگوٹا میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔مزدوروں نے پورے شہر میں ہنگامے اور احتجاج شروع کردیے ۔اس دوران کچھ لوگوں نے سرکاری عمارتوں پر حملے کیے اور کئی گاڑیاں بھی جلادیں۔اس سے کاسترو نے نتیجہ نکالا کہ اگر عوام چاہیے تو وہ کچھ بھی کرسکتے اور انقلاب لا سکتے ہیں۔

کاسترو کولمبیا سے یہ سبق سیکھ کر واپس اپنے ملک آگیا۔چار سال بعد الیکشن آگئے اورکاسترو بھی پارلیمنٹ کا امیدوار بن گیا ۔لیکن یہ الیکشن ہوئے ہی نہیں کیونکہ کیوبا کے سابق صدر بتیستا نے الیکشن سے صرف تین ماہ قبل فوج کی مدد سے اقتدارپر قبضہ کرلیا۔اس نے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگادی ،مخالفین کو چن چن کے جیلوں میں ڈال دیا اور تنقید کرنے والے اخبارات پر بھی غیر معینہ مدت تک پابندی لگادی۔

اس وقت تک فیدل کاسترو اپنی وکالت کی ڈگری مکمل کرچکا تھا اور ہوانا میں باقاعدہ پریکٹس کررہا تھا۔اس نے اپنی یونیورسٹی کی ایک دوست میراتا لیاس سے شادی بھی کرلی۔کاسترو نے اپنی پرسکون زندگی چھوڑ کرہتھیار اٹھالے ۔کاسترو نے انقلاب کا پلان بنایا 26جولائی 1953کو کاسترو ایک قافلہ لے کر سنتیاگو کی فوجی بیرک کی جانب بڑھا اس کا مشن تھا کہ بیرک میں پہنچ کر فوجی اسلحے کے گودام پر قبضہ کیا جائے اور وہاں سے انقلاب کا اعلان کردیا جائے گا لیکن کاسترو قافلے کے ہمراہ جب وہاں پہنچاتو فوجیوں نے کاسترو کے قافلے پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں کاسترو کے آٹھ ساتھی ہلاک ہو گئے۔

کاسترو ساتھیوں سمیت پہاڑوں میں فرار ہوگیا لیکن پانچ دن بعد کاسترو کوگرفتار کرلیا گیا۔کیوبا حکومت نے کاسترو کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا جس میں اس کو پندرہ سال قید ہوگئی۔ جیل کی زندگی کاسترو کیلئے نعمت ثابت ہوئی اس نے یہاں سے اپنی انقلابی تقریریں باہر سمگل کرنا شروع کردیں۔کاسترو کے ساتھی اس تقریروں کی کاپیاں پورے ملک میں پھیلادیتے۔

کاسترو کی رہائی کا کوئی چانس نہیں تھا لیکن پھر اچانک ایک دن کیوبا کی حکومت نے کاسترو کو رہا کردیا۔1954میں صدر بتیستا نے صدارتی الیکشن کا اعلان کیا اور فیدل کاسترو سمیت تمام سیاسی قیدی رہاکردیے۔15مئی 1955کو کاسترو جیل سے رہا ہو گیا ۔جیل سے رہاہونے کے بعد کاسترو میکسیکو چلا گیا ۔اس نے 26جولائی کوانقلابی موومنٹ کا نام دیا۔یہاں کاسترو نے اپنی ساتھیوں کو مسلح تربیت دینا شروع کردی لیکن اس کی اطلاع میکسیکن حکومت کو مل گئی اور انہوں نے کاسترو کو جیل میں ڈال دیا ۔

جیل میں چے گوویرا اور کاسترو کو ایک ہی سیل میں رکھا گیا۔کاسترو کی چے گوویرا سے ملاقات بھی میکسیکو میں ہی ہوئی تھی جلد ہی چے گوویرا بھی کاسترو کی تحریک میں شامل ہو گیا۔کچھ عرصے بعد میکسیکو کی حکومت نے کاسترو کو جیل سے رہا کردیا گیا ۔پھر اس نے گوریلہ تربیت کی کتابیں پڑھی اور اپنے ساتھیوں کی تربیت شروع کردی۔میکسیکو میں رہنے والے کیوبن شہریوں نے کاسترو کو دل کھول کر پیسہ دینا شروع کردیا۔جب کاسترو کی تیاریاں مکمل ہو گئی اور انقلاب کا لمحہ آن پہنچا۔جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :