پی ڈی ایم اور کارکن

بدھ 27 جنوری 2021

Saif Awan

سیف اعوان

اپوزیشن جماعتوں کے اتحادی پی ڈی ایم کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں۔پی ڈی ایم بار بار اپنے پلان میں تبدیلی کیوں کررہی ہے ۔پی ڈی ایم نے پہلے عمران خان کو 31دسمبر تک مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن دی پھر یہ ڈیڈ لائن 31جنوری تک پہنچ گئی۔بلاول بھٹو نے استعفوں کو ایٹم بم قراردیا۔مریم نواز نے کہا چار سو سیٹوں پر ضمنی الیکشن کرانا آسان نہیں ہے۔

نوازشریف نے 2018کے انتخابات میں دھندلی کا الزام سلیکٹرز پر لگایا پھر خاموش ہو گئے۔مولانا فضل الرحمن نے فروری کے پہلے ہفتے میں لانگ مارچ کا اعلان کیا پھر پلان میں تبدیلی آگئی اب لانگ مارچ کومارچ میں منتقل کرنے کا اعلان کردیا گیا؟اب اچانک سے تحریک عدم اعتماد کا مشن میدان میں لاؤنچ کردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ کچھ سوالات ہیں جن کے جواب قوم جاننا چاہتی ہے۔

پی ڈی ایم کے پلان میں بار بار تبدیلی میں کیا حکمت عملی پوشیدہ ہے ؟جلسوں میں پی ڈی ایم کی لیڈر شپ کچھ اور اعلان کرتی ہے ۔پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں کچھ اور اعلانات کیے جاتے ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام ،مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی پارٹی میٹنگز میں مختلف اعلانات ہوتے ہیں؟۔سوشل میڈیا پر ایک اور خبر گردش کررہی ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی بہن بختاور بھٹو کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو دعوت نامے بھیج دیے ہیں۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں کے کارکن اب اپنے غصے کا اظہار کھلے عام سوشل میڈیا پر کررہے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کی ایک متحرک کارکن اور نوازشریف کی مداح ”سیانی کڑی“اپنے غصے کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ”میاں صاحب جس شخص کا تقاریر میں باقاعدہ نام لیکر اسے ووٹ چوری،عمران خان کو لانے اور اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا مجرم گردانتے ہیں ،زرداری اور بلاول بھٹو اسے اپنے گھر کی شادی میں مدعو کررہے ہیں۔

ایک اور لیگی کارکن ”ماریہ چوہدری “نے بھی ٹویٹر پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا آصف زرداری نے اپنی بیٹی بختاور کی شادی پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو دعوت دیکر ثابت کردیا ہے کہ وہ دراصل فوج کا بندہ ہے اور میر مرتضی بھٹو سے لیکر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں شریک مجرم ہیں۔
جب آپ کارکنوں کے سامنے کچھ اور بیانیہ رکھیں گے ،پارٹی میٹنگ میں اور بیانیہ ہوگا تو کارکنوں میں نفرت،غصہ اور اضطراب پایا جائے گا جس کاوہ کھلے عام اظہار بھی کریں گے کیونکہ ہر پارٹی کے کارکن اپنی اپنی جماعتوں کیلئے بے لوث کام کرتے ہیں ان کو نہ عہدوں کالالچ ہوتا اور نہ پیسے کا لالچ ہوتا ہے۔

پی ڈی ایم کی لیڈر شپ کارکنوں کے جذبات سے کھیلنے اور بیانیے بدلنے سے متعلق پہلے کارکنوں کو بھی اعتماد میں لے تو بہتر ہوگا۔کسی بھی جماعت کا وجود سیاسی کارکنوں کے بغیر بے جان اور مردہ ہے۔
میرے ذرائع بتاتے ہیں بلاول بھٹو نے عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرنے سے قبل میاں نوازشریف سے اس ایشو پر تفصیلی بات کی ہے۔پہلے میاں نوازشریف اس کے حامی نہیں تھے لیکن بلاول بھٹو نے مسلسل تین دن نوازشریف کو کالزکی اور بلاخر وہ نوازشریف کو تحریک عدم اعتماد پر منانے میں کامیاب ہو گئے۔

ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ دیوتاؤں نے نوازشریف کو ایک بار پھر یقین دہانی کرادی ہے کہ آپ حکومت کیخلاف جو مرضی کریں لیکن ہم پر نام لے کر تنقید نہ کریں۔تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری راستہ ہے ۔مریم نواز اور مولا نا فضل الرحمن اس وقت اسمبلی سے باہر ہیں لیکن ان کو بھی چاہیے کہ جمہوری عمل کے مطابق ہی عمران خان کی تبدیلی کا راستہ اختیار کریں۔جمہوری لوگ جمہوریت کی مضبوط اور پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے کیلئے جدوجہد کرتے اچھے لگتے ہیں ۔پی ڈی ایم کی لیڈر شپ یاد رکھے ایک بیانیہ ان کا ہے اور ایک بیانیہ کارکنوں کا بھی ہے ۔کارکنوں کو پردے میں رکھ کر ان کے جذبات سے کھیلنے کا وقت گزرچکا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :