پریوں کی کہانیاں

منگل 20 اپریل 2021

Saif Awan

سیف اعوان

پچھلے چار پانچ دن سے سوچ رہا ہوں جو باتیں میرے ذہن میں چل رہی ہیں ان پر آرٹیکل لکھو یا نہ لکھو۔پھر ذہن میں اچانک کسی دوست کے میری ایک ٹویٹ پر کمنٹس یاد آگئے جس میں اس نے کہا تھا کہ سیف بھائی اگر آپ بھی شمالی علاقہ جات کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو دل کھول لکھ دیں پھر امید ہے آپ خوب شمالی علاقہ جات کی سیر کریں گے۔میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ ملک میں چل کیا رہا ہے۔

ہاں ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ ملک میں تقرریاں اور تبادلے بہت تیزی سے ہورہے ہیں۔چاہیے وہ وفاق کی کابینہ ہو یا پنجاب یاپھر خیبر پی کے کی کابینہ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سطح پر بیورکریسی کے تبادلے بھی ایسے ہورہے ہیں جیسے شیر خوار بچے کے ماں روزانہ دو سے تین بار کپڑے تبدیل کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اگر کچھ نہیں ہورہا تو ڈلیور نہیں ہورہا اور نہ وعدوں کی تکمیل ہورہی ۔

بس مسلسل ڈائیلاگ بازی کا مقابلہ چل رہا ہے۔چلے ہوئے کارتوس بار بار آزمائے جارہے ہیں ۔ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہوتی جارہی ہے کہ جو وزیر ایک وزارت میں بہتر پرفارم نہیں کرسکا اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوسری وزارت میں انقلاب لے آئے گا۔فرد واحد اس وقت سیاہ و سفید کا مالک بنا ہے۔وہ سیاہ کرے یا سفیدی ہر طرف سے سب اچھے کی آواز آئے گی۔کیونکہ ان کے آس پاس خوشامدی اور مکھن لگانے والوں کا رش لگا ہے۔

اگرایک خوشامدی چلاجاتا ہے تو اس سے بڑا چاپلوس بغل گیر ہوجاتا ہے۔آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔چلیں اپوزیشن بھی اسی امید پر ہے کہ کسی طریقے سے پانچ سال پورے ہو جائیں۔دوسری جانب قوم جس کرب سے گزر رہی ہے شاید حکومت اور اپوزیشن اس کا اندازا نہیں کرسکتی۔مہنگائی نے عام آدمی کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے لوگ اپنے بچوں کو سکولوں سے ہٹاکر کوئی ورکشاپ پر لگارہا ہے یاتو ہوٹل میں برتن صاف کرنے کی نوکری پر لگارہا ہے۔

اس کی وجہ صرف اس غریب کے پاس سکول کی فیس ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں ۔ایک غریب آدمی تین سو روپے کلو گھی خریدے یا ایک ہزار روپے اپنے بچے کی سکول فیس ادا کرے۔
عمران خان ہر دوسرے دن قوم کوپریوں والی کہانیاں سناتے ہیں جس کا نشہ قوم پر کم از کم ایک ہفتے تک طاری رہتا ہے۔جیسے ہی قوم کا نشہ اترتا ہے تواپوزیشن کے کسی بڑے اور نمایاں چہرے کی گرفتاری کی خبر آجاتی ہے پھر اس خبر کو بھی ایک ہفتے تک ٹی وی سکرینوں پر دیکھنے کا نادر ترین موقعہ قوم کو ملتا ہے۔

پھر اس خبر کا اثر کم ہونا شروع ہوتا ہے تو پیٹرول مہنگا ہونے کی خبر آجاتی ہے ۔دو دن اپوزیشن جماعتیں اور سوشل میڈیا یوزر دل کھول کے اپنی اپنی بڑاس نکالتے ہیں ۔اس خبر کا نشہ کم نہیں ہوتا تو قوم کو ایک بڑی خوشخبری مل جاتی ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مزید ایک ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دے دی ہے۔پھر اگلے چار دن حکومتی وزیر اور مشیر ملکی معیشت کے مضبوط اور مستحکم ہونے کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ۔

پھر جیسے ہی کوئی انٹر نیشنل میڈیا کی طرف سے پاکستان کی معیشت کے متعلق تشویش کی خبر آتی ہے تو ان سب وزراء اور مشیران کا نشہ فورا اتر جاتا ہے اور وہ ٹی وی سیکرینوں سے دو چار دن کیلئے غائب ہو جاتے ہیں ۔پھر اپوزیشن کے لوگ اور حکومتی ناقدین کو بھی موقعہ مل جاتا ہے اور وہ خوب معیشت کا پوسٹماٹم کرتے ہیں ۔معیشت کے متعلق ایسی خبر آنے کے اگلے دن ہی وزیراعظم ایک بڑا فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنی معاشی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کردیتے ہیں ۔

پہلے سے معاشی ٹیم میں موجود لوگوں کو جو معیشت کی الف ب سمجھ آتی ہے ان کی اچانک سے چھٹی کی خبر کے ساتھ ہی قصہ تمام ہو جاتا ہے۔
اگر مجھے کوئی آج کل پوچھتا ہے کہ عمران خان کب جارہا ہے تو میرا تو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ بھائی عمران خان کیوں جائے اس کو ہر صورت پانچ سال پورے کرنے چاہیے کیونکہ جن لوگوں کے سر پر تبدیلی کا بھوت سوار تھا ان کا یہ بھوت اچھی طرح اوتر جائے تاکہ وہ آئندہ سے تبدیلی کا نام بھی نہ لے سکیں۔ویسے بھی میں تو اس بات کے حق میں ہوں کہ ہر جمہوری وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے کیونکہ جب تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرے گا تو ملک میں جمہوریت مضبوط کیسے ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :