ایسٹ انڈیا کمپنی ۔قسط نمبر2

منگل 25 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

ایسٹ انڈیا کمپنی کی مغل فوج کے ہاتھوں شرمناک شکست کے بعد کمپنی نے اپنی تمام توجہ تجارت پر مرکوز کرلی۔پھر کمپنی نے چین کے ساتھ بھی تجارت شروع کردی۔کمپنی چین سے چینی کے برتن اور کپڑا منگوانے لگی ۔کچھ عرصے بعد کمپنی نے صوبہ بنگال میں پوسٹ کی فیکٹریاں لگالی اور اب کمپنی چین میں افیون سمگل کرنے لگی۔چین کی انتظامیہ کو جب کمپنی کے افیون سمگل کرنے کا معلوم ہوا تو کمپنی کی چین سے جنگ شروع ہو گی۔

یہ جنگ کمپنی نے جیت لی اور چین کو شکست ہوئی۔اس جنگ کے جیت کے بعد کمپنی نے دوبارہ چین میں افیون کی سمگل بھی شروع کردی اور چین کی بندگاہ ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا جو بندرگاہ چین کو 1997میں دوبارہ واپس ملی۔اسی دوران برصغیر میں بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ۔

(جاری ہے)

الگ الگ ریاستوں میں ہندوں راجاؤں نے اپنی حکومتیں بنانا شروع کردی۔

اس سے کمپنی نے فائدہ اٹھایا اور دھڑا دھڑ مقامی لوگ کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔اب کمپنی نے باقاعدہ فوج کے ذریعے برصغیر میں لوٹ مار شروع کردی۔یہاں یہ بھی بتاتا چلو کہ انگلش کی ڈکشنری میں پہلااردو کا لفظ جو شامل ہوا وہ ”لوٹ “ہی تھا ۔جس کو کمپنی کی برصغیر میں لوٹ مار کے بعد ڈکشنری میں شامل کیا گیا۔ایک اندازے کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1765سے 1938تک برصغیر سے 45ٹریلین ڈالرز کی لوٹ مار کی۔

کمپنی کو کچھ عرصے کیلئے نتھ نواب سراج الدولہ جو بنگال کے حکمران تھے انہوں نے ڈالی۔نواب سراج الدولہ نے کلکتہ میں انگریزوں کے قلعے پر قبضہ کرلیا اور کئی انگریز قیدی بنالیے۔پھر انگریزوں نے نواب کے قریبی شخص میر جعفر کو اقتدار کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ۔1757میں سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان جنگ پلاسی ہوئی ۔جس میں انگریز میر جعفر کی سراج الدولہ سے غداری کی وجہ سے جنگ جیت گئے۔

پھر انگریزوں نے 1765میں مغل بادشاہ شاہ عالم کو شکست دی اور پورے برصغیر کی مالک بن گئی۔شاہ عالم کی حکومت اب دہلی تک محدود رہ گئی تھی۔شاہ عالم کے بعد مغلیہ سلطنت کو شاہ اکبر ثانی اور پھر بہادر شاہ ظفر نے سنبھالا۔بہادر شاہ ظفر 1857تک دہلی کے حکمران رہے۔بظاہر اقتدار مقامی لوگوں کے پاس تھا لیکن تمام فائدہ اور ٹیکس کمپنی حاصل کررہی تھی۔

جس کمپنی نے صرف 35ملازمین کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا اب وہ پورے برصغیر پر راج کررہی تھی۔شاید یہ دنیا کی واحد مثال ہو گی کہ ایک نجی کمپنی نے اپنی فوج کے ذریعے برصغیر کی بیس کروڑ عوام کو اپنی غلام بنالیا تھا۔نواب سراج الدولہ کے بعد انگریزوں کے ساتھ میسور کے سلطان حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان نے مختلف جنگیں لڑی۔ٹیپو سلطان نے کمپنی کو دو بار شکست دی لیکن تیسری جنگ میں کمپنی نے کچھ مقامی غداروں کو خرید لیا اور ٹیپو سلطان چند غداروں کی وجہ سے اپنے وطن پر قربان ہو گیا۔

1813میں برطانیوی پارلیمنٹ نے ایسٹ کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کردیا۔پھر 1834 میں برطانیوی پارلیمنٹ نے کمپنی کے تجارتی اختیارات مکمل طور پر واپس لے لیے اور کمپنی کو ایک کارپوریشن میں بدل دیا۔کمپنی کے ساتھ برصغیر کے مقامی لوگوں کی آخری جنگ 1857میں ہوئی لیکن مقامی افراد بغیر کسی حکمت عملی کے جنگ شروع کرنے کی وجہ سے یہ جنگ ہار گئے۔

اس بغاوت کے نتیجے میں انگریزوں نے ہزاروں ہندوستانیوں کو سرے عام پھانسیاں دی اور سینکڑوں کو سڑکوں پر کچل دیا۔یہ تحریک آزادی انگریزوں کے خلاف کامیاب تو نہیں ہو سکی لیکن اس نے مقامی لوگوں میں مذمت کا ایک جذبہ پیدا کردیا۔جنگ آزادی کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کے تمام اختیارات ختم کردیے اور کمپنی کی فوج کو برطانیوی فوج میں شامل کرلیا۔

اس کے بعد برصغیر کا مکمل کنٹرول برطانیوی راج میں آگیا ۔جبکہ کمپنی کا برصغیر سے مکمل خاتمہ 1874میں ہوا۔اس کے بعد کمپنی تاریخ کے اوراق میں کہی گھوم ہو گئی۔آج لندن میں ایک چھوٹی سے دکان ہے جس پر ایسٹ انڈیا کمپنی لکھا ہوتا ہے۔دوستوں دو کالم پر مشتمل ایک کمپنی کی سٹوری بتانے کا مقصد یہی ہے کہ ایک کمپنی اگر کہی بھی حکومت کرتی ہے تو اس کا مقصد صرف لوٹ مار ہی کرنا ہوتا ہے ۔جب اس کی لوٹ مار کا مشن مکمل ہوتا جا تا ہے تو کمپنی ایسے ہی گمنام ہو جاتی ہے ۔پھر نہ کمپنی کا پتہ چلتا ہے اور نہ اس کمپنی کے کرداروں کا پتہ چلتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :