کورونا کی ابتدا سے انسانیت کی انتہا تک

جمعرات 23 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

اگر آج سے چند ماہ پہلے تک دیکھا جائے تو دنیا کے رنگ،طور و اطوار کچھ اور ہی تھے چار سو چہمگوئیاں تھیں شہنائیاں تھیں انسان ایک بے لگام گھوڑے کی طرح دنیا کے چار سو دوڑ لگائے ہوئے تھا اک ایسا گھوڑا جو سر کشی پر اتر آیا تھا وہ کہتے ہیں نا''خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے''
خدا ڈھیل دے کر بندوں کو آزماتا ہے کہ آیا کہ کون میرے خوف سے میری عبادت کر رہا اور کون میری خوشنودی کیلئے میرے در جھکا ہوا تھا بات شروع ہوئی تھی آج سے چند ماہ پہلے سے جب اس وبائی مرض کورونا کا نام و نشان تک نہ تھا پھر ایک دن ٹی وی چینل نے ایک سنسنی خبر سنائی چائنہ کے شہر ''ووہان'' میں اک ''کورنا '' نامی وائرس پھوٹ پڑا ہے جو دن بدن بتدریج بڑھ ہی رہا ہے جس نے لاکھوں لوگ اپنی لپیٹ میں لے رکھے ہیں۔

آجکل کے جدید دور میں جب بھی کوئی نیا وائرس منظر عام پر آتا ہے تو ترقی یافتہ ممالک اپنے طور طریقے سے اسکی جانچ پڑتال کرتے ہیں کیونکہ ''انسانی ذہن'' کی فطوریت سے آیا کہ کون واقف نہیں سبھی جانتے ہیں ترقی یافتہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک دوسرے اپنے سے کم تر کو دبانے کیلئے ان پر اپنا رعب جمانے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے اپناتے ہیں جوں جوں ترقی ہوئی ویسا ہی انسان کی شیطانیت نے بھی ترقی کی پنجابی کا ایک قول ہے۔

(جاری ہے)

''جیہڑا گڑ دتیاں مردا ہوئے اس نوں زہر کیوں دیئے''
یعنی کہ منظر عام پر بھی نہ آیا جائے اور ہمارا کام بھی ہو جائے ایسی جنگ لڑنے کیلئے پھر ایٹمی ہتھیار نہیں خود سے پیدا کیئے گئے ''وائرس'' کا سہارا لیا جاتا ہے ایسے وائرس جو خود سے لیبارٹریز میں تیار کیئے جاتے ہیں خود کے مفاد کیلئے دوسروں کو غائل کرنے کیلئے ایسا ہی ایک وائرس جسکے بارے میں چائنہ کا مؤقف کچھ یوں ہے یہ وائرس غلطی سے سیل ٹھیک طرح کام نہ کرنے کی وجہ سے لیبارٹری سے لیکیج ہوا۔

چلو پل بھر کو مان بھی لیا وہ سچ بول رہے ہیں یہاں سوچنے کی یہاں بات یہ ٹھہری آیا کہ اتنا زہریلہ وائرس تیار کرنے کے پیچھے انکا مقصد کیا تھا؟ مان لیا غلطی سے خارج ہوا لیکن وہ یہ تو مان رہے ہیں نا تیار انھوں نے کیا تیار ہوا تبھی تو لیکیج ہوئی اتنا گھناؤنا کھیل وہ سائنس اور لیبارٹری کی آڑ میں کھیل رہے تھے یہ تو لیکیج ہو گئی وگرنہ نجانے کیا کچھ شیطانیت چھپی تھی کہاں اور کب یہ وبا استعمال ہونی تھی۔

پھر سب سے بڑا المیہ تو یہ ٹھہرا کہ یہ ہاتھ لگانے سے بھی پھیل جاتا ہے یعنی اسے کچھ یوں تیار کیا گیا کہ بس ہاتھ لگاؤ گلے ملو یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے اس کو بنانے میں کوئی بہت بڑا ماسٹر مائنڈ تھا کیونکہ بنانے والا جانتا تھا یہی وہ واحد ذریعہ جسکے ذریعے یہ با آسانی منتقل کیا جا سکتا دیکھتے دیکھتے اس وبائی مرض نے پورے چائنہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہر طرف نفسا نفسی کا عالم چھا گیا گویا کہ خود پیسے خرچ کر کے انہوں نے مصیبت مول لے لی یہ وائرس اس قدر تیزی سے پھیلا کہ اوور سیز لوگ بھی اس لپیٹ میں یوں لپٹے اور اموات کا سلسلہ اس قدر تیز ہوا انھیں کچھ سمجھ نہ آیا کہ اسے کیسے اور کیونکہ روکا جائے اس سمے انہوں نے انکے علاقے میں بسنے والے دوسرے ممالک کے لوگوں کو انکے ممالک واپس بھیجنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے اب یہاں ایک چھوٹی سے بات جو سوچنے اور سمجھنے کی کیا وہ جانتے نہیں تھے اتنا زہریلہ وائرس کتنوں کی جان جھوکے میں ڈال سکتا ہے انکے ملک کو تو اس نے لپیٹ میں لیئے ہوئے ہی تھا دوسرے ممالک تو سیف تھے نا لیکن پھر مشن کیسے پورا ہوتا سب کو غائل کرنے کا چند ماہ پہلے تک اگر ہم اپنا پاکستان ہی دیکھیں تو ہمیں صاف نظر آئے گا کس قدر رواں دواں تھے ہم اپنی نارمل لائف جینے میں پھر یوں ہوا کچھ انفیکٹڈ لوگوں کو ائیر پورٹس پر اتار دیا گیا یہاں سے شروعات ہونی تھی اک وبا کی یا پرسکون ماحول کی لیکن ہم ٹھہرے'' اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا'' والی سوچ رکھنے والی عوام ہماری حکومت اور ہمارے وزیر اعظم خان کی ہدایات تھیں ایسا جو بھی انفیکٹڈ کیس آئے اسے ائیرپورٹ سے ہی ڈائریکٹ ہاسپٹل شفٹ کر دیا جائے تا کہ باقی تمام لوگ محفوظ ہاتھوں میں رہ سکیں مگر بھلا ہو ہماری ''بھتہ خود'' پولیس کا جنہوں نے چند سو یا چند ہزار کیلئے اپنا ایمان اور اپنی جان کا سودا ''کورونا'' سے کر دیا اور نوٹس جیب میں ڈال کے انفیکٹڈ لوگوں کو پتلی گلی سے جانے دیا یوں ہی باقی ممالک کے ساتھ بھی ہوا یعنی خود پیسے دے کر مصیبت سہیڑی اور کورونا اور گلے لگایا۔

یہاں سے شروعات ہوئی اک عالیشان و عظیم جنگ کی جو کہ کورونا اور ڈاکٹرز کے بیچ ہوئی اور اب تلک جاری ہے۔جب انفیکٹڈ لوگ گھر کو پہنچے جن سے ملے جن سے ہاتھ ملایا میل ملاپ کیا کورونا کی آبادی بڑھنا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اپنی دیس میں اور لاکھوں کی تعداد میں پوری دنیا میں اس مرض میں مبتلا ہو گئے۔
ایسی خوفناک صورتحال میں میٹنگز رکھی گئی اجلاس ہوئے کابینہ بیٹھائی گئی ڈاکٹرز کو بلوایا گیا آیا کہ اس کی روک تھام کیسے کی جائے لیکن چونکہ وائرس نیا تھا تو ظاہری سی بات ویکسین بھی نئی ہی ہونی تھی جو کہ اب تلک تیار ہی نہیں ہوئی کیونکہ اب تلک رسرچز جاری ہیں آیا کہ جو اس مرض سے صحت یاب ہوئی انکے بلڈ سیمپل لے کر ''اینٹی باڈیز'' اکٹھی کر کے تحقیق کرنا باقی آیا کہ یہ مریض اپنی قوت مدافعت سے ٹھیک ہوئے یا ہمارے کیئے گئے ''پلازمہ'' ٹریٹمنٹ سے حال ہی کی تازہ رپورٹ کے مطابق ستمبر تک کی پیش گوئی کی گئی کہ ستمبر تک کورونا کی ویکسین تیار ہو جائے گی یعنی ابھی ہمیں اور تباہی کے دہانے پر جانا ہے۔

اس وبائی مرض سے لڑنے کیلئے ہمارے پاس فی الحال ایک ہی دوا ہے اور وہ ہے احتیاط وہ ہے خود کی سیفٹی وہ ہے خود کو گھر کی دہلیز تک قید و بند رکھنا وہ ہے خود کو زیادہ میل ملاپ سے باز رکھنا کیونکہ یہ بڑھتا ہے میل ملاپ سے حال ہی کی تحقیق سے پتہ چلا ایک ڈاکٹر حضرات کا کہنا تھا اب تک کے آئے کیسز میں اسی فیصد ایسے کیسز میں وائرس لگنے کی وجہ میل ملاپ تھی۔

دیکھا جائے تو پہلے دن سے ہدایات جاری کر دی گئی تھیں خود کو محفوظ رکھنے کی مگر ہم ٹھہرے اکڑو ہم نے تو اپنی الگ ہی فلاسفی جھاڑنی ہوتی ہر معاملے میں ہم نے شروع دن سے ہی حکومت کی جاری کردہ ہدایات کو نہیں مانا اور افسوس کی بات اب جب ''لاک ڈاؤن'' تک لاگو کر دیا گیا ہر شے بند پڑی آمدورفت مارکیٹس سب بلاک ہم تب بھی خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے سے باز نہیں آ رہے اور شاید آئیں گے بھی نہیں کیونکہ ہمارا ماننا تو یہ ٹھہرا
''جو رات قبر میں وہ باہر نہیں''
جاہلانہ سوچ کے مالک جو ٹھہرے ہمارے سفید وردی میں ملبوس ڈاکٹرز حضرات جو دن رات اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر ہمیں اس مرض سے چھٹکارا دلانے کیلئے جتے ہیں ہمارا حق تو یہ تھا انکا ہی خیال کر لیتے آخر وہ بھی تو انسان ٹھہرے لیکن نہیں ہم نے کبھی اپنے ماں باپ کی نہیں مانی یہ تو پھر ڈاکٹرز ٹھہرے۔

لیکن آفرین ان سفید وردی میں ملبوس سپاہیوں کو جو بے لوث خدمات سر انجام دے رہے ہیں سب کچھ سنتے ہوئے جانتے ہوئے بھی کہ لوگوں کا موقف ان کے بارے میں کیا ٹھہرا پھر بھی سب سے بے نیاز وہ جتے ہیں بیشک ڈاکٹرز ہمارے سرمایہ ہیں ہمارا فخر ہیں اور بیشک یہی وہ لوگ ہیں جو انسانیت کے اعلی درجہ پر فائض ہیں۔
اس ناگہانی صورت میں حکومت کے اٹھائے گئے اقدام پھر چاہے وہ احساس پروگرام کی صورت میں ہوں یا پھر بینظیر انکم سپوڑت کی صورت میں چاہے وہ ٹائیگر فورس کی صورت میں ہوں یا چاہے بے روزگار اسکیم کی صورت میں قابل تعریف ہیں کیونکہ ہمیں سب کو ساتھ لے کے چلنا ہے۔

غریب و غربا امیر سب کو ساتھ لے کر اگے بڑھنا ہے اور اس وائرس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے ملک کو لاک ڈاؤن سے نکالنا ہے اور اس کورونا کو لاک ڈاؤن کرنا ہے تاکہ ہمارا ملک ہماری معیشت ہمارے لوگ بچ سکیں۔
ایسی ناگہانی صورت میں کام کرنے والی تمام تر تنظیمیں تمام تر فلاحی ادار تمام تر پرائیوٹ و سرکاری سیکٹر قابل تعریف اور قابل احترام ہیں خدا سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :