
''لبرل ازم''
جمعہ 24 اپریل 2020

سلیم ساقی
کہیں ''ماروی سرمد'' ہے تو کہیں آزادی مارچ کرتی ''لبرل عورتیں'' ہیں کہیں ''میرا جسم میری مرضی'' ہے تو کہیں ''اپنا کھانا خود گرم کرو'' ہے جنہوں نے نوجوان لڑکیوں اور ادھیڑ عمر کی عورتوں کو ''ماڈرن ایج'' کے سبز خواب دکھا کر انکی آنکھوں پر یورپین پٹی کچھ یوں باندھ رکھی ہے کہ نہ کچھ سوچا نہ سمجھا بس ''ہمیں آزادی دو'' اب بندہ پوچھے پہلے کیا تم غلام ہو؟
دنیا و جہان کی ہر حد تو پہلے سے تم نے پار کر رکھی ہے اب اور کیا چاہیے ؟ اسلام کو تو تمہارے ''لبرل ازم'' نے اس قدر پیچھے چھوڑ دیا کہ اسلام نعوذبااللہ افسوس صد افسوس کہ صرف اور صرف مساجد، نکاح کرنے تک یا جنازہ پڑھانے تک کا ہو کر رہ گیا
افسوس ہے ایسی ''لبرل آنٹیوں'' کی قسمت پر جنہیں خود کو زمانہ جاہلیت کی کالک میں پھر سے جھوکنا ہے ارے نادان عورتوں کیا تم بھول چکی ہو اپنے اسلام کی تاریخ کو؟ کیا تمہیں خبر نہیں کیا سلوک کیا جاتا تھا تمہارے ساتھ اسلام سے پہلے؟
یہ اسلام ہی تو ہے جس نے تمہیں جیتے جی ''زندہ درگور'' ہونے سے بچا لیا کیا تم نے سن نہیں رکھا اے بنت حوا جب تمہارے اپنے ہی تمہاری جان کے دشمن تھے تمہارے لاکھ چیخنے چلانے لاکھ آہ و فغاں کے باوجود تمہارا اپنا خون تمہیں اپنے ہاتھوں سے چلتی سانسوں کے ساتھ زندہ دفن کیئے دیتے تھے
اور آج جب دنیا کی ہر آسائش و آرام ہر شے تمہیں گھر کی دہلیز تک دستیاب ہے تمہیں ہر آزادی حاصل ہے ایک شے مانگی نہیں کہ تمہارے سامنے رکھ دی جاتی ہے ایسے میں تمہیں یورپین کے رنگ میں رنگنا ہے؟ ارے ذرا خود کو دیکھو تو سہی کچھ قصر چھوڑی بھی ہے ؟ ذرا خود کے زیب تن کیئے ہوئے لباس کو دیکھو کیا اس میں ذرا بھی کہیں سے بھی اسلام کے رنگ کی جھلک نظر آتی ہے؟
تمہارے تو لباس کی ''عریانیت'' اس قدر ہو چکی کہ افسوس تمہارا انگ انگ نظر آتا ہے فیشن کے نام پر پھٹی جینز ڈال لی تم نے فیشن کے نام پر دوپٹہ سر سے اتر کر گلے تک آ گیا فیشن کے نام پر تمہاری شلوار اس قدر اوپر کو چڑھ گئی کہ تمہاری ٹانگیں تک نظر آنے لگ گئیں
اب ''منی سکرٹس'' اور شارٹس ڈال کر تمہیں سڑکوں پر گھومنے کی اجازت دینے سے تو ہم رہے یورپین عورتوں کی پیروروی کرنے کی سوچ سوچ میں پالے ہوئے اے نادان لڑکیوں کبھی کسی یورپین لڑکی سے اسکے ساتھ بیتنے والی رواداد سننا جہاں لڑکی بس ایک ''ٹشو پیپر'' سمجھی جاتی ہے جسے ''استعمال'' کیا اور پھینک دیا اس سے بڑھ کر وہاں لڑکی کی کوئی ویلیو نہیں
کمال ہے نا باہر کے ممالک میں بستی ہماری مسلمان ''خواتین'' لڑ رہی ہیں عبایہ و حجاب زیب تن کرنے کیلئے اور ہمارے ''پاکستان'' میں جہاں ایسی کوئی پابندی لاگو نہیں یہاں ''خواتین'' اسے تن سے اتارنے کیلئے لڑ رہی ہیں
جو چیز کھو جائے نا قدر اس کی ہوتی ہے جو چیز پاس ہو اسکی قدر نہیں ہوتی آج یہاں ایک عورت کو جینے کی مکمل آزادی ہے ''کار ڈرائیونگ'' سے لے ''پرائیویٹ سیکٹرز'' میں جاب تک کرنے کی آزادی میسر ہے نجانے انھیں پھر بھی کیسی آزادی چاہیے
اصل میں یورپین قوتیں ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے میں لگی ہیں یہ فیشن یہ نت نئے ڈیزائینز انکے ہتھکنڈے ہیں انکے ہتھیار ہیں ایسے ہتھیار جو ہماری موت کا سامان ہیں کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے
'' جو قومیں اپنی تہذیب چھوڑ دے انھیں تباہ برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا''
اگر دیکھا جائے تو ہم اپنی تہذیب کو اتنا پیچھے چھوڑ چکے ہیں کہ چاہ کر بھی اس تک رسائی دوبارہ اسے پا نہیں سکتے آئے دن ہم تباہی کے دہانے پہ جا رہے ہیں جہاں سرا سر تباہی ہے بس تباہی۔۔۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.