آؤ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں

جمعرات 30 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

جب سے مولانا طارق جمیل صاحب اور میڈیا تنازع شروع ہوا تب سے اب تک اگر دیکھا جائے تو آئے دن نام نہاد صحافیوں نے مولانا صاحب کی معذرت کرنے کے باوجود انکی زات پر وہ کیچڑ اچھالا کہ پوچھیئے مت
بزرگ سچ ہی کہہ گئے ہیں سچ کڑوا ہوتا ہے
پل بھر کو اگر ہم اپنے منہ کا رخ سامنے سے ہٹھا کر اپنے گریبان کی طرف موڑیں تو شاید ہماری گز بھر لمبی زبانیں خود بخود بتیسی میں مارے شرم کے چپ کر کے بیٹھ جائیں
یہ تو وہ بات ہو گئی کہ چور کی داڑھی میں تنکا یعنی ایک چھوٹی سے بات پر اتنا بھڑکاؤ پن کیوں بھئی جو من کے سچے ہیں وہ تو منظر عام پر آ کر یوں چیخ چیخ کر نہیں بولے پھر تم ہی کیوں جو پہلے ہی ریڈ زون میں کھڑے ہو
اور پھر دیکھا دیکھی کئی لبرل ازم کی حمایت کرنے والیوں نے بھی قلم اٹھائے اور عریانیت کا پرچار کرنے والی یہ نام نہاد مسلم عورتیں یورپین لبادہ اوڑھے چل پڑیں یہ پوچھنے کہ ہمیں بے حیا کیوں بولا گیا
جیسا کہ ارشاد ہے
رات سونے سے پہلے اپنے تمام تر بیتے دن کا محاصرہ کر کے سویا کریں پل بھر کو آنکھیں بند کر کے سوچا کریں آیا کہ دن نیک گزرا یا بدنیک کیونکہ ہو انسان کو اپنا کالا چٹا پتہ ہوتا ہے بالکل ایسے ہی ہر انسان کو اپنی گزاری زندگی اور گزر رہی زندگی کا بہت اچھے سے پتہ ہوتا ہے اپنے تک پتہ ہونا خیر وہ بات تو رہ گئی اپنے درمیاں اور اگر تمام تر زندگی مانوں کے کسی فلم کی طرح ہر ایک کی زبان ہر جاری ہو پھر بھی خود کو دودھ کا دھلا ماننا یہ تو سرا سر حماقت ہوئی
یہاں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہے سبھی ایک تھالی کے چٹے پٹے ہیں جس کو پھرولو گے ایک سے بڑھ کر ایک نکلے گا
آجکل ہر ایک کی بحث کا عنوان یہی ٹاپک کیوں بنا ہوا ہے اسکی بھی ایک وجہ ہے کچھ دن پہلے میں نیٹ پر سے ایک صاحب کا لکھا ہوا آرٹیکل پڑھ رہا تھا انھوں نے لکھا ہوا تھا کہ ہم صحافیوں کو مارکیٹ میں ان رہنے کیلیئے کسی بھی ایک وائرل ٹاپک کی ضرورت ہوتی ہے جس پر ہم قلم کشائی کر کے اپنا بھرم قائم رکھ سکیں اور ہو بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے ایک تو ویسے کورونا کے باعث لاک ڈاؤن لاگو کیا گیا ہے جہاں ہر شے بلاک پڑی ہے وہی پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ کچھ تیکھا تڑکے والا عنوان کالم کی زینت بنانے کیلیئے بھی تو چاہیے اور وہ ہمیں مل گیا اب جب تلک کچھ اور نہیں ملتا تب تلک اس کو رگڑ رگڑ کر گھس کے چھوڑیں گے
کوئی اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہتا ہے مولانا کیا تھے میں بتاؤں ارے خدا کے بندو تم کس لڑی کو کس لڑی سے جوڑ رہے ہو؟ کیا تمہاری سوچ کا معیار یہی ٹھہرا کہ بدلے کی اگ بجھانے کیلیئے کسی کے گزرے ماضی کو اسکے حال پہ سنا کر اسکے مستقبل میں مشکلیں پیدا کرنے کی کوشش کرو یہ بس ذہنی فطوریت ہے اور کچھ نہیں
اگر دیکھا جائے تو کسی کو بھی اس تمام تر واقع سے نہ کچھ نفع ملا نہ نقصان ہاں پر کچھ کیا تھے اور کیا بنے پھرتے تھے یہ اچھی طرح کھل کر سامنے آیا بہت کچھ بہت اچھے انداز سے تفصیلا سننے کو ملا
اور کچھ نے بس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور کچھ نہیں،نہ لینا نہ دینا سامنے اسے رکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور کچھ نہیں
اصل میں یہ انسانی فطرت جو ٹھہری روز ازل سے کمزور و ناتواں کو رگڑا جاتا ہے بس ایک دفعہ ہتھے چڑ جائے سہی
فی الحال ہمیں کسی سے الجھنے کی بجائے ملکی حالات واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ملک بچانے کا سوچنا ہو گا ہمیں دعا بھی کرنی ہے دوا بھی کرنی ہے کیونکہ آئے دن ہمارا ملک بھی چین بنتا جا رہا ہے لاشوں پہ لاشیں گرتی جا رہی ہیں احتیاطی تدابیر کا اپناؤ ہر صورت لازم بنانا ہو گا سب کو ترغیب دینی ہو گی تا کہ سب لاک ڈاؤن کے مقصد کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :