
اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا
منگل 9 جون 2020

سلیم ساقی
ہماری شیطانی اکنامکس کا ایک اصول ہے
جس چیز کی ڈیمانڈ ذیادہ ہو اور سپلائی کم ہو اس چیز کا ریٹ بڑھا دو یعنی پھر چاہے چالیس کا چار سو کرو یا پچھتر کا ڈیڑھ سو کوئی تمہیں پوچھے گا نہیں کوئی پکڑے گا نہیں
ابھی جیسا کہ حال ہی میں جہاں کورونا کے پیش نظر پٹرول کی قیمت میں قدرے کمی آئی ہے وہیں پٹرول کی قلت بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے پہلی بات تو پٹرول ملتا ہی نہیں دوسری بات اگر کہیں سے مل بھی جائے تو ریٹ بیچنے والے کی مرضی کے حساب سے لگے گا پھر چاہے وہ ڈیڑھ سو لگائے یا دو سو اس کی مرضی اب جہاں 10/12پٹرول پمپس میں سے ایک آدھ پٹرول بیچ رہا ہو باقی سارے بند پڑے ہوں پھر چاہے وہ پانچ سو لیٹر کے حساب بھی بیچے گا اسکا ہاتھوں ہاتھ بکے گا کیونکہ ہم نے خود کو ٹیکنالوجی کی لت میں کچھ یوں لت پت کیا ہے کہ ہمیں گھر سے بازار جانے کے لیے بھی گاڑی چاہیے اسکول سے گھر آنے کے لیے بھی گاڑی چاہیے گھر سے آفس جانا ہو یا آفس سے گھر آنا ہو رشتہ دار کے گھر جانا ہو یا آنا ہو ہمیں گاڑی ہی چاہیے اگر گاڑی نہ ہو تو کم سے کم موٹر بائیک تو لازما ہونی ہی چاہیے اور یہ سب چیزیں پٹرول پر چلتی ہیں جیسا کہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح اس مشینری کو چلانے کے لیے پٹرول کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمیں ان جگاٹیکس لینے والوں کے ہاتھوں اپنا سر منڈوانا ہی پڑتا ہے
اب یہاں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ پٹرول کی قلت کیوں ہوئی یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر چیز بند پڑی ہے سب کام ٹھپ پڑا ہے ٹرانسپورٹس بس نام کی چل رہی ہیں ایسے میں پٹرول سستا کرنے کی کیا لاجک بنتی ہے بھئی اگر سستا کرنا ہی ہے تو کھانے پینے کی اشیاء کرو تا کہ بھولی بھالی غریب عوام کا کچھ فائدہ ہو ہم کھانے پینے سے زندہ رہتے ہیں پیٹرول پینے سے نہیں اگر فی روٹی کی قیمت 6روپے سے بڑھا کر 10 روپے کر دی جاوے گی فی من گندم 1400 کا ریٹ لگا کر 1450 میں بیچی جائے گی ایسے میں آپکا پیٹرول سستا کرنے کا فائدہ کسے ہو گا؟
گندم سے یاد آیا کہ ہماری حکومت وقت کی نا اہلی تو دیکھیئے کہ شوگر اسکینڈل کے مرکزی کردار کو ہی ملک سے باہر جانے دیا مطلب کچھ بھی؟ ابھی آٹا شوگر اسکینڈل ہم لوگوں کے بیچ ہی بھنگڑے ڈال رہا تھا کہ جناب رحمن ملک،وزیر صحت شہاب الدین اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا سینیتھریچا کو ہراساں کرنے کا کیس سامنے آ گیا اگر اسے سامنے رکھ کر آٹا شوگر اسکینڈل کو پیٹھ پیچھنے پھینکنے کی چال ہے تو ہاتھ ملائیے یہ چال بہت جلد ناکام ہونے والی ہے کیونکہ معذرت کیساتھ ابھی ہماری عوام پاکسانی نام نہاد ماڈلز کی وائرل ویڈیو دیکھنے سے فراغت پا کر نکل نہیں پائے کہ انھیں کسی اور بے ہودہ ویڈیو کا لالچ دے کر انکا دھیان بھٹکایا جائے
مزے کی بات یہ ٹھہری کہ پٹرول سستا ہونے کے باوجود عوام کو پہلے سے بھی دگنے ریٹس میں مل رہا ہے یعنی اگر ریٹ لسٹ چیک کی جائے تو پٹرول 74 روپے 55پیسے فروخت ہونا چاہیے لیکن یہاں صورتحال بالکل ہی الٹ ہے یہاں تو یہ ٹھگ باز کہیں 120 روپے لیٹر دے رہے ہیں تو کہیں 140 اور کہیں بالکل بھی نہیں دے رہے ہر طرف خشکا پڑا ہوا ہے
ایسے میں اگر اگر سوال اٹھایا جائے تو آگے سے جواب ملے گا بھئی ہم نے ہر چیزوں کے نرخ کم کیئے ہوئے ہیں اب تمہیں دکاندار ذیادہ نرخوں میں چیز فروخت کرے تو ہم کیا کروں بندہ ان سے یہ پوچھے کہ ہم نے تمہیں حکمرانیت کیوں دی؟ اگر یہ سب کام ہم نے ہی کرنے ہیں تو یہاں پہ ایک چھوٹا سا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کو گڑ بڑ ہے کہاں؟ ویسے تو ہمارا پورا سسٹم ہی گڑ بڑ سے بھرا ہوا ہے ایک دودھ بیچنے والا ہے اسکا بس دودھ تک چلتا ہے وہ اس میں پانی ملاتا ہے ایک دکاندار ہے اسے اگر کوئی شے مارکیٹ سے 140 روپے کلو میں پڑ رہی ہے بجائے اس کے کہ وہ دس روپے اوپر منافع کے لگا کر لوگوں کو 150 میں بیچے وہ 60 روے لگا کر اس ریٹ کو 200 کر دے گا اگر اوپر چلے جائیں تو کہیں لال مرچ بنانے والی فیکٹریاں ہیں جو اینٹیں کوٹ کوٹ کر مرچوں میں مکس کر رہی ہیں تو کہیں دوائیوں میں کوئلہ پیس کر ڈالا جا رہا ہے اس سے اوپر چلے جائیں تو M.P.Aاور M.N.A آتے ہیں جو حکومت کی طرف سے آئی غریب عوام کی بھلائی کے لیے گرانٹس ہڑپ کر کے ڈکار تک نہیں لیتے اس سے اوپر چلے جائیں تو ہمارے کرپٹ حکمرانوں کا ٹولا آتا ہے جو غرباء سے وصول کیے گئے ٹیکسز سے اپنے اثاثہ جات بنا کر پانچ سالہ پورا کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں
لب لباب یہ کہ یہاں جسکا جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا پھر چاہے وہ فٹ پاتھ پر ریڑی لگا کر پھل بیچنے والا ہو یا سینٹ میں بیٹھا کوئی سینیٹر�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلیم ساقی کے کالمز
-
افزائش نسل کی بڑھوتری کے ثمرات و نقصانات
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
عشق مجازی سے عشق حقیقی
پیر 13 ستمبر 2021
-
''ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے''
منگل 24 اگست 2021
-
تھرڈ کلاسیے ایکٹرز
منگل 1 جون 2021
-
''جسد خاکی یہ ستم نہیں اچھا''
منگل 4 مئی 2021
-
لیبرز ڈے
ہفتہ 1 مئی 2021
-
رمضان کو بخشش کا فرمان کیسے بنائیں؟
منگل 27 اپریل 2021
-
کہاں کھو گیا وہ برگد کا پیڑ پرانا
ہفتہ 24 اپریل 2021
سلیم ساقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.