''نیا امتحان پہلے سے بھی مشکل''

بدھ 25 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کورونا وائرس کی دوسری لہر میں خطرناک اضافے کے بعد 26نومبر سے 24دسمبر تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کے مطابق پاکستان میں تعلیمی اداروں میں گزشتہ ایک ہفتے میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ وفاقی وزیر شفقت محمود کا کہنا ہے کہ اساتذہ اور بچوں کی صحت سب سے مقدم ہے۔

بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔اس فیصلہ سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نیمکمل لاک ڈاون کا عندیہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا تھا مکمل لاک ڈاون ہوا تو ذمے دار پی ڈی ایم ہوگی۔
قارئین کرام! تعلیمی اداروں کی بندش اور مکمل لاک ڈاون کی ذمہ داری کسی پر بھی عائد ہو لیکن سخت امتحان کا سامنا تو عام آدمی کو ہی کرنا ہے۔

(جاری ہے)

حکومت نے معیشت پر ہمیشہ بات کی لیکن ستم ظریفی تعلیمی نقصان پر سیاسی قیادت رسمی بیانات سے آگے نہیں بڑھی۔


ہمارے تعلیمی ادارے دوبارہ بند کردیئے گئے ہیں جبکہ باقی دنیا لاک ڈاون کر رہی ہے لیکن سکول برطانیہ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی کھولے گئے ہیں۔ سکولوں کے علاوہ بچوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔یہاں پاکستان میں بچوں کو سکولوں کے علاوہ ہر جگہ باہر جانے کی اجازت ہے۔معاملہ صرف ترجیحات کا ہے تعلیم ہماری اولین ترجیح ہی نہیں۔ سکولز مالکان کی طرف سے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو اسکے پیچھے بھی کاروباری مفادات ہیں۔

حکومت فیسوں میں کمی کا حکم صادر کرتی ہے تو سکولز ٹیچرز کی تنخواہ سے کٹوتی کی خبریں بھی رپورٹ ہوتی ہیں۔ تعلیمی نقصان پر کوئی بات نہیں کرتا۔ مکمل لاک ڈاون کے خلاف تاجر برادری کی طرف سے سخت ردعمل آیا ہے۔ حکومتی احکامات کیخلاف دکانیں کھولنے اور سیاسی جماعتوں کے اجتماعات پر کوئی کاروائی نہیں ہوسکی۔ سب سے سہل اور آسان فیصلہ تعلیمی اداروں کی بندش کا ہی ثابت ہوا سو حکومت نے کرلیا۔


اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا برملا اعتراف ہی کر لیں کہ ہماری قومی ترجیحات میں تعلیم کی حثیت ثانوی ہے۔تعلیمی نقصان پر کسی کی توجہ نہیں۔مذہبی طبقہ کی خواہش پر مساجد اور تمام عبادت گاہیں کھلی ہیں۔سمارٹ لاک ڈاون کے ذریعے معیشت کے پہیہ کو چلتے رکھنا ہے۔ سیاست اور سیاسی اجتماع جاری ہیں۔وفاقی حکومت اپنی توانائی اپوزیشن کو نیچا دکھانیمیں صرف کر رہی ہے۔

اپوزیشن کا مقصد صرف حکومت کو زیر کرنا ہے۔معیشت کے لیے فکر مند ارباب اختیار تعلیم پر بات کرنے پر تیار ہی نہیں۔اداروں کی بندش پر طالبعلم طبقہ کی طرف سے خوشی کا اظہار اس بات کی غمازی کرتا ہے تعلیمی اداروں میں علم نہیں صرف کتب پڑھائی جاتی ہیں۔سوشل میڈیا پر قابل افسوس ردعمل سامنے آیا۔ تعلیم کو مذاق بنا دیا گیا۔ عقل و شعور سے عاری تبصرے، کھلے بندوں سیاست اور صرف تنقید ایسا اجتماعی رویہ بے حد تکلیف تشویش ناک ہے۔


اس سوچ کے درست ہونے اور جذبہ سے انکار نہیں کہ نونہال وطن کی صحت پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا لیکن سکولوں کی بندش ہی کافی نہیں۔ جس طرح تمام شعبہ جات کھلے ہیں اور ایس او پیز کے تحت کام ممکن ہے، تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ احتیاط تو تبھی ممکن ہے اگر مکمل لاک ڈاون ہو۔
کوئی بھی فیصلہ اتفاق رائے سے ہو تو ہی بہتر ہے۔
اگر یہ تاثر عام ہو کہ حکومت صرف اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کے لیے لاک ڈاون چاہتی ہے اور بقول رانا ثناء اللہ جلسوں سے کورونا پھیلتا ہی نہیں توایسی سیاسی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

کچھ کہنے یا لکھنے سے بہتری کی امید کم ہے۔ لیکن راقم الحروف اپنے حصہ کا دیا جلانے سے نہیں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔رواں سال فروری میں جب کورونا آیا تو وزیراعظم عمران خان نے اسے عام فلو قرار دیا تھا۔ پہلے پہل پی ٹی آئی کے وزراء ماسک استعمال نہیں کرتے تھے۔ اب معاملہ الٹ ہے۔کورونا وائرس کی مکمل آگاہی وفاقی حکومت کو ہے اور اپوزیشن بے پروا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ فیصلہ سازی میں ہمیشہ اپنی سہولت کو دیکھا جاتا ہے۔ اجتماعی فائدہ یا نقصان کو کم ہی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ خدا جانے یہ امتحان کب ختم ہوگا اور زندگی پھر معمول پر آئے گی۔ انسانی جان کی حفاظت سب سے پہلے اس کے بعد تعلیم پھر کاروبار اور سیاست ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :