غربت کی وجہ بدعنوانی

جمعرات 8 جولائی 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاویداقبال نے بدعنوانی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور غربت کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔انہوں نے نیب کے حوالہ سے کہا کہ ہم سہ رکنی حکمت عملی،آگاہی، تدارک اور اطلاق پر عمل پیرا ہیں۔ انکے مطابق وہ معاشرے سے اس برائی کے خاتمہ کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر اس لعنت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خیالات سے جزوی طور پر اتفاق کیا جاسکتا ہے لیکن ملک کی اکثریت انکے اس سہ رکنی حکمت عملی کیدعوے سے متفق نہیں۔
نیب کے ذریعے سیاسی انتقام کا تاثر عام ہے۔تمام سٹیک ہولڈرز نیب پر مکمل اعتماد نہیں کرتے اس کی بڑی وجہ پاکستان میں سیاسی انتقام کی روایت ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ریاستی اداروں کا استعمال نئی بات نہیں۔

(جاری ہے)

ایسے ماحول میں مثبت نتائج کا سامنے آنا مشکل ہے۔
احتساب کے حوالہ سے آصف علی زرداری پاکستان کے سب سے مظلوم کردار کے طور پر موجود ہیں۔6اگست 1990سے آج تک وہ الزامات، مقدمات، ضمانت، رہائی اور حکومت میں شامل رہے۔انکے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔نوازشریف سزا کیباوجود بیرون ملک چلے گئے۔ ایسے احتساب پر قانونی رائے، فیصلے، پیچیدگیاں سب ایک طرف مگر عام آدمی اعتماد نہیں کرسکتا۔

اسیری، مقدمات اور رہائی یہ ہماری سیاسی تاریخ کا قابل شرم باب ہے۔احتساب کبھی Across the Boadنہیں ہوا۔بقول شاعر
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہوجاوں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہوجاوں گا
احتساب تبھی کامیاب ہوسکتا ہے جب جب ادارے پر سب کا اعتماد ہو اور فیصلے مسترد نہ ہوں۔ریاستی اداروں کی مضبوطی اور کارکردگی ہی عوامی تائید کے لیے ضروری ہے۔

بیانات، خیالات اور نعروں سے بہتری نہیں آسکتی۔
دوسری طرف پاکستان میں جب مہنگائی اور بدانتظامی کے خلاف بات کی جاتی ہے تو موجودہ حکمران فورا یہ راگ آلاپنا شروع کردیتے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں نے کرپشن کی ہے۔ جسکی وجہ سے مہنگائی ہے۔ جبکہ اپوزیشن سیاسی انتقام کا واویلا کرتی نظر آتی ہے۔ کچھ بھی کہیں لیکن احتساب کے نام پر ووٹ لینے والے واحد ایماندار حاکم وقت عمران خان کے دور اقتدار میں مہنگائی اور کرپشن عروج پر نظر آتی ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صرف شخصیات ہی کرپٹ نہیں سارا نظام ہی کرپٹ ہوچکا یے۔ حکمران نعروں کے سہارے خواب دکھا کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔دولت صرف مخصوص ہاتھوں تک محدود ہے۔کرپشن جاری و ساری ہے اور عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہوتا جارہا ہے۔
عوامی مشکلات ایک مکمل موضوع ہے اس پر تفصیل سے لکھا جاسکتا ہے۔ اس کالم میں اپنے موضوع تک ہی محدود رہتے ہیں۔

آج اگر دیکھیں تو ہمیں دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک نظر آئے جہاں کرپشن کا شور و غوغا نہیں ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا بھر میں جاری ہے۔ پانامہ لیکس اور پیراڈائز لیکس نے سب کچھ عیاں کردیا ہے کہ کرپشن کے حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
پاکستان میں عوام نے ہر حکومت کو کرپشن اور مہنگائی کی وجہ سے مسترد کیا۔ اسکے باوجود کسی بھی حکومت نے کوئی متبادل نظام قائم نہیں کیا۔

صرف بیانات، الزامات کے سہارے وقت گزارا گیا۔جبکہ مربوط اور متبادل نظام ضروری تھا۔
سب اس بات پر متفق ہیں کہ فی زمانہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ تمام مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایک کے بعد ایک نیا بحران جو جنم لیتا ہے اس کی وجہ کرپشن ہے۔ کرپشن کے خلاف شعور اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر مالی کرپشن کو ہی کرپشن سمجھا جاتا ہے جبکہ کرپشن کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔

کمیشن، پرمٹ، لائسنس، ٹیکس چوری، قرضہ جات، ذاتی مفاد کے لیے مذہب کا استعمال، جنسی کرپشن جیسے موضوعات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔اپنی حیثیت سے بالا تر ہوکر اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن ہے۔ رشوت جو کرپشن کی خاص شکل ہے مگر ہمیشہ صرف اسی پر بات کی چاتی ہے اور سیاسی قیادت ہی کرپٹ قرار دی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم، ادب، ریسرچ سے لیکر اوپر سے نیچے تک کرپشن رچ بس چکی ہے۔

یہاں تک کہ ایک دفعہ حمزہ شہباز نے بچوں کو یہ درس دیا تھا کہ کرپشن تو ہوتی ہے پھر بھی ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ مان لیں کہ ہماری معیشت ہی کرپشن کے سہارے کھڑی ہے۔ہم ذہنی طور پر کرپشن کو قبول کرچکے ہیں۔مسائل بڑھنے کے ساتھ کرپشن پر بات ضرور کرتے ہیں مگر اسکے تدارک لیے مربوط حکمت عملی تشکیل نہیں دیتے۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔

اس کے بعد متبادل نظام، مضبوط ادارے، باہمی اتفاق رائے اور احتساب کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا لازم ہے۔ نعروں اور الزامات سے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔پاکستان میں آج تک کرپٹ اداروں اور شخصیات کا صیحح احتساب نہیں ہوا۔ حالانکہ کرپشن کے خاتمہ کا واحد ذریعہ ہی مجرموں کا محاسبہ ہے۔ اس محاسبہ کے لیے بہتر قانون سازی اور عملداری ضروری ہے۔ بات وہی ہے سہ رکنی حکمت عملی آگاہی، تدارک اور اطلاق، شرط اول ہے ادارے پر مکمل اعتماد بیانات سے نہیں، اعلانات سے نہیں صرف اور صرف متبادل مربوط نظام سے ممکن ہے۔ کرپٹ نظام کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :