کمال یہ کہ تیرے فیصلے قبول کئے

منگل 12 اکتوبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پنجاب حکومت نے اپنے ترجمان فیاض الحسن چوہان کو تیسری بار انکے عہدے سے ہٹا دیا۔ حالیہ تقرری 13اگست 2021ء کو کی گئی تھی۔حسّان خاور اب حکومت ترجمان کے طور پر کام کریں گے۔فیاض الحسن چوہان اس سے قبل مارچ 2019ء کو اپنے ایک متنازعہ بیان کے سامنے آنے پر ردِ عمل کے طور پر مستعفی ہوئے۔ نومبر 2020ء کو ایک دفعہ پھر ان کو ہٹا کر فردوس عاشق اعوان کو ترجمان مقرر کیا گیا۔

اس دفعہ اس فیصلہ کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہیں آئی۔ فیاض الحسن چوہان خود اس فیصلہ سے لاعلم تھے۔ اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اللّہ کی قسم مجھے اس فیصلہ کا علم نہیں۔میڈیا کے ذ ریعے آگاہی ملی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر دفعہ میڈیا سے اطلاع ملی۔وزیرِ اعلی کا اختیار ہے جسے چاہیں اپنا ترجمان مقرر کریں۔

(جاری ہے)

تین سال میں ہمیں بہت کچھ سیکھ لینا چاہئے تھا۔

وزیر اعلی ہٹانے سے پہلے اعتماد میں لے لیتے تو میں نے کونسا انکار کر دینا تھا۔ عمران خان میرے قائد ہیں۔اگر چوتھا موقعہ ملا تو بھی خوشی ہوگی۔اور اطلاعات کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار ہو جاوں گا۔
قارئین کرام! بلاشبہ وزیر اور مشیر کی نامزدگی اور ہٹایا جانا وزیر اعلی کا آئینی اختیار ہے۔ لیکن تبدیلی سرکار نے اس اختیار کو استعمال کرنے کی عجیب روایت قائم کی۔

بیورکریسی میں تبدیلیاں، تقرری و تبادلہ جات بھی کچھ اور ہی پیغام دیتے ہیں۔حکومت میں بے چینی ہے۔ مسائل حل نہیں ہو رہے۔عوامی دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ کرپشن بیانیہ کو لیکر صرف الزام تراشی کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ سب سے اہم ذمہ داری حکومتی ترجمانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔عوام اور اپوزیشن کا سامنا کرنے کے لئے فقرہ بازی ہی باقی بچتی ہے۔

اس جملہ بازی کا مقابلہ جاری ہے۔
فیاض چوہان، فردوس عاشق اعوان اور پھر فیاض چوہان، مرکز میں شہباز گِل نتیجہ صفر، اب حسّان خاور اس سے قبل صمصام علی بخاری، میاں اسلم فقط نام اور چہرے تبدیل ہوئے۔ حکومتی کارکردگی مایوس کن ہی رہی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہٹائے جانے کی خواہش بھی ایک عرصہ سے موجود ہے۔وزیر اعظم عمران خان ہر دفعہ انکے دفاع کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔

نو مولود سیاسی تجزیہ نگار سیاسی عہدوں کی تبدیلی کو فیلڈ نگ میں تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔سیاست جو ایک سنجیدہ کام ہے اس کا تقابلی جائزہ ایک کھیل سے کرنا ہی سیاست کے ساتھ کھیلنا ہے۔ پارٹیاں نظریات سے مضبوط ہوتی ہیں اور حکومتیں واضع پروگرام سامنے رکھ کر کامیابی کے حصول کے لیے سرگردہ ہوتی ہیں۔ موجودہ سیاست صرف الزام تراشی اور جملہ بازی تک ہی محدود ہے۔

اس دفعہ ہٹائے جانے پر فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے ہمیں تین سال میں بہت کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا۔ ایک خوب صورت بات مگر ساتھ ہی چوتھی دفعہ ذمہ داری کی خواہش نے اس بات کی اہمیت کو ختم کر دیا۔ فیاض الحسن چوہان تین دفعہ ہٹائے جانے سے خود کچھ نہ سیکھ سکے اور امید وزیر اعلی سے لگائے ہوئے ہیں۔سب واضع ہے کہ فیصلہ سازی میں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی با اختیار نہیں۔

اختیار کس کے پاس ہے یہ اب کھلا راز ہے۔
ذرائع فردوس عاشق اعوان کے ہٹائے جانے پر سب کچھ سامنے لے آئے تھے یہ فیصلہ بھی اچانک نہیں ہوا۔ صرف فیاض الحسن چوہان ہی بے خبر ہیں۔اس خبر کے بریک ہونے سے کچھ دیر قبل صدر اوکاڑہ پریس کلب شیخ شہباز شاہین فیاض الحسن چوہان کے ہمراہ انکے ساتھ موجود تھے۔ واٹس ایپ کے ذریعے اس ملاقات کی تصویر آئی ہی تھی کہ انکے ہٹائے جانے کی خبر سامنے آئی ہم نے شیخ شہباز شاہین کو خبر سینڈ کی انکا جواب تھا انکے پاس یہ اضافی ذمہ داری تھی جو واپس لے لی گئیں ہیں۔

فیاض الحسن چوہان بطور وزیر جیل خانہ جات کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے ناطے انہوں نے غلام گردشوں میں ہونے والی چہ مگوئیاں قابل بیان نہیں سمجھیں۔
اندر کی بات ایک صحافی بنفس نفیس سامنے لاتا ہے۔ انتظار کرتے ہیں کہ شیخ شہباز شاہین کب بیان کرتے ہیں کہ معاملات کس حد تک پریشان کن ہیں۔ حکومت نامزدگی اور تقرری کے فیصلوں میں کب یکسوئی اختیار کرتی ہے۔

فیاض الحسن کچھ سیکھ لینے کی بات بھی کرتے ہیں اور چوتھی دفعہ اسی تنخواہ پر کام کرنے پر تیار بھی ہیں۔یہی اس حکومت کا المیہ ہے یہاں کوئی سیکھنے کو تیار نہیں۔بدقسمتی یہ کہ ان فیصلوں پر کبھی کوئی بات بھی نہیں ہوتی۔ تمام معلومات صرف ذرائع سے ہی سامنے آتی ہیں۔ اور حکومت کے لئے بہت آسان ہے کہ تمام معلومات کو فیک نیوز قرار دیکر مسترد کر دیتی ہے۔ اس طرح ڈنگ ٹپانے پالیسی جاری ہے۔ ایڈ ہاک ازم سیاسی نظام کے لئے کبھی سود مند نہیں رہا مگر ہم اس کے شکار ہیں بقول زنیر نقوی
کمال یہ کہ ترے فیصلے قبول کیے
ملال یہ کہ ترے فیصلوں پر بات نہیں کی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :