ناموس رسالت و ختم نبوت کا پہرےدار

جمعہ 27 نومبر 2020

Sarwar Hussain

سرور حسین

15نومبر اسلام آباد کی یخ بستہ رات میں بالوں میں چاندی اتری ریش والا مرد درویش بخار کی حالت میں عشق رسول کی گرمی سے دلوں کو ولولے دے رہا تھااور وہ اپنی زندگی کی اس آخری مہم میں بھی کامیابی سمیٹ کر لوٹا۔کسی کو انتہا پسنداور متعصب کہنا بہت آسان ہے لیکن آج ہم اپنا جائز حق لینے کی بات کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور وہ پورے عالم کفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرانہیں للکارتا رہا۔

فکر معاش اور ذمہ داریاں انسان کو فکری اور ذہنی طور پہ بزدل بنا دیتی ہیں اور ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے ۔ایسے ماحول میں وہ محبت رسول کی طاقت لئے جانے کہاں سے نمودار ہوا کہ ہر طرف اس کے ڈنکے بجنے لگے۔اس کا مطالبہ اہل سیاست سے بہت سیدھا اور سادہ تھا کہ یہ وطن جن مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا سب اس کی طرف لوٹ آئیں اور عوام سے یہ تھا کہ حضور کے دین کے غلبے کے لئے ان قوتوں کے سامنے ڈٹ جائیں جو ہمیں نظریاتی اورذہنی پر مفلوج کرنے میں لگی ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے لئے اس مرد خدا نے اللہ کی کتاب ،حضور کی سیرت، صحابہ کا طرز عمل اور فکر اقبال کو مآخذ بنایا جس کے سبب اس کی باتوں کو تو جھٹلایا نہ جا سکا لیکن ذاتیات کی چند باتوں کو بنیاد بنا کر ہمارے میڈیا اور نام نہاد لبرلز نے اس کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش جاری رکھی۔ مولانا کی سیاسی جدو جہد کا دائرہ گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے لیکن انہوں سے دہائیوں سے موجود سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی نیندیں اڑا کے رکھ دی تھیں۔

وہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اپنی ایک طاقت رکھتا ہے اور انہوں نے اس طاقت کی عملی شکل زمانے کو دکھا دی۔پولیس کے جوان نے جب ان کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر قبضہ کیااور تضحیک آمیز لہجے میں ان سے کہا کہ تم کوئی دین کے ٹھیکیدار ہو جو ہر وقت ایک ہی بات کرتے ہو تو انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اسے کہا کہ پترا میں دین کا ٹھیکیدار تو نہیں چوکیدار ہوں اور تمہارے مالک تمہیں تنخواہ دیتے ہیں اسی لئے تم نے بات کرتے ہوئے میری سفید داڑھی کا بھی حیا نہیں کیا تو اسی طرح یاد رکھنا کہ میرے بھی مالک ہیں جن کا میں کھاتا ہوں وہ بہت ڈاہڈے ہیں جس کے بعد وہ جوان سارے رستے خاموش رہا۔

ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا لیکن وہ اس وجہ سے سڑکوں پر نہیں آئے۔دھرنا دیا تو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے نام پر۔جلسے جلوسوں میں اپنا نعرہ نہیں لگوایا بلکہ بچے بچے کی زبان پر لبیک یا رسول اللہ ،تاجدار ختم نبوت زندہ باد، دیکھو دیکھو کون آیا رسول اللہ کا دین آیا جیسے نعروں کو عام کیا۔سیاسی لیڈر آج تک عوام کی حکمرانی کا جھوٹافریب دے کراقتدار کی راہداریوں میں گھستے آئے ہیں لیکن انہوں نے وژن دیا کہ دین کو تخت حکمرانی پر لانا ہے۔

وطن عزیز کی بنیادوں میں بہنے والے خون کی صداوٴں سے آباد نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کو بچوں کے ذہنوں سے محو کر کے ”لکھنے پڑھنے کے سوا، پاکستان کا مطلب کیا“ جیسا فریب خوردہ نعرہ میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیا گیا، یہاں آئین کے تقدس کا فریب دیاجاتا رہا جسے طاقتوروں نے موم کی ناک بناکر جب اور جیسے چاہا اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا لیکن وہ دستورریاست کیا ہوگا ”محمد رسول اللہ“کا سبق یاد دلاتے رہے۔

اس مرد قلندر نے جو کہا وہ کر کے دکھایا، جس مقصد کے حصول کے لئے نکلے اس کو حاصل کر کے لوٹے،نہ وضع قطع بدلی نہ بولی اور انداز میں فرق آیا۔ختم نبوت کے دھرنے کی کامیابی کے بعد اسی ٹرالے پر بیٹھ کر یہ معذور شخص آنسو بہاتالاہور تک یہ کہتے ہوئے واپس لوٹا کہ ہم نے اپنا مقصد تو حاصل کر لیا لیکن جو جانیں چلی گئیں ان کا دکھ نہیں جا رہا ۔ گولیوں کی بوچھاڑ، آنسو گیس کی بھرمار اور سیکورٹی اداروں کی مار دھاڑ کچھ بھی تو اسے ڈگمگا نہ سکیں ۔

چشم فلک نے ایک مدت بعدکسی مرد خدا میں قوت و زور ایمانی اور جذبہٴ حب الوطنی کے حسین امتزاج کو دیکھا ۔ بزدلی ، تساہل پسندی، آرام طلبی، مصلحت کیشی ،مفادپرستی اور مکر و فریب سے بھری سیاسی و مذہبی قیادتوں کے ماحول میں مولانابے مثال جرات و بہادری ، غیرت و جوش ایمانی اور حق گوئی و بے باکی کا مظہرتھے جس سے وہ آج کے دور کے نہیں بلکہ کسی اور ہی زمانے کے فرد معلوم ہوتے تھے ۔

قرارداد پاکستان کی نشانی یادگار کا سر آج آسمان تک بلند ہو گیا تھا کہ اس کی قدر کو جاننے اور پہچاننے والا کوئی سچا محب وطن، رسول اللہ کا عاشق اور دین متین کا سپاہی اس قوم کے بچے بچے کے دینی احساس کو جگا نے کے بعد اپنے مالک کے حضور حاضر ہو گیا۔حضرت اقبال اپنے کلام کی تخلیق پر آج رشک کناں ہو ں گے کہ میرے وارثوں میں سے نہ سہی لیکن کوئی ایسامرد درویش بھی آیا جس نے میرے کلام کی معنویت کو اجاگر کرکے اس میں نئی روح پھونک دی۔

مولانا نے یہ باور کرا دیا کہ آج بھی جو صدق دل سے حضور کی عزت کی بات کرے گا، کائنات کی عزتیں اس پہ نچھاور ہونے کو امڈ پڑیں گیں،آج بھی جو نبی کے دین کا علم لے کے نکلے گا زمانہ اس کا ہم رکاب ہونے میں شرف محسوس کرے گا، اور آج بھی جو ان کی ناموس کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہو کر میدان میں نکل آئے دنیا اس کے پیچھے جانیں ہتھیلی پہ رکھ کر دوڑ پڑے گی ۔

میڈیا نے انہیں کوریج نہیں دی، بڑے بڑے کالم نگاروں نے ان کے مقاصد کی سچائی اور اخلاص کو پیچھے چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی سی باتوں کو تختہٴ مشق بنانے پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کیں، میڈیا اینکر انگریزی لباس پہن ان کی تقاریر میں سے قابل اعتراض جملے نکال کر بال کی کھال اتارنے میں لگے رہے اور وہ عزتوں عظمتوں اوررفعتوں کا تاج پہن کر آسودہٴ خاک ہو گئے۔

مولانا کے تاریخی جنازے نے مٹھی بھر نام نہاد ملحدین لبرلز، مغرب نواز میڈیا اورتمام عالم کفر کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ یہ وطن توحید کے علمبرداروں،جمال محمدی کے پرستاروں اورختم نبوت وناموس رسالت کے پہریداروں کی سر زمین ہے ۔یہ وطن کل بھی لا الہ الا اللہ کے نعرے کے سائے تلے حاصل کیا گیا تھا اور یہاں آج بھی محمد رسول اللہ کے دستورکا ہی غلبہ ہو کر رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :