"سوشل ایکٹ" کی منظوری اور خلیل الرحمٰن قمر

جمعہ 30 جولائی 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

قدرت اپنے نظام کےد ائرے خود بخود بُنتی  ہے اور اس کیلئے کرداروں کا تعین اسی نظام کے تحت  اپنے اپنے وقت پر ہوتا ہے۔اس نظام پر کھنچی ہوئی لکیریں اور اس  پر براجمان  نقطے اپنے اپنے وقت پر حرکت میں آتے ہیں۔"میرے پاس تم ہو" ایک ایسا ڈرامہ تھا جس نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری  میں انقلاب برپا کر دیا اور اس کی غیر معمولی کامیابی نے ڈرامہ انڈسٹری کو نئی زندگی دی۔

قدرت اپنے انداز سے چیزوں کو ترتیب دے رہی ہوتی ہے جو ہماری محدود نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔میڈیا کے ذریعے عورت مارچ کے نام پر جو بے ہودگی اور بد تہذیبی  کا بازار گرم  تھا اس کے لئے ضروری تھا کہ میڈیا کے اندر سے ہی کوئی توانا اور موثر آواز اس منہ زور طوفان کے آگے بند باندھتی۔ اس ساری صورتحال میں  خلیل الرحمن قمر صاحب کو غیر معمولی  فیم حاصل ہوا ۔

(جاری ہے)

شاید پاکستانی ڈرامے کی تاریخ میں یہ واحد ڈرامہ تھا جس کی آخری قسط  دیکھنے کے لئے لوگ سینما گھروں میں ٹکٹ خرید کر گئے۔ہر طرف خلیل الرحمن قمر کے نام اور کام کے ڈنکے بج رہےتھے۔اور اسی دوران وہ لمحہ آن پہنچا جب وہ خاتون نما کردار جو ہر روز میڈیا پر بیٹھ کر ہر ایک کی  درگت بنا رہا تھا قدرت کے بُنے ہوئے اس جال میں آیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دن رات میڈیا پر اودھم مچانے والی یہ خاتون اب تک منظر سے غائب ہے ۔

اس معمولی سے واقعے نے میڈیا انڈسٹری میں بھونچال پیدا کر دیا اور اس سوچ  کی پیداوار مختلف شکلوں میں کھل کر سامنے آ گئے اور انہوں نے خلیل صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔قدرت نے اپنا کام کر دیا تھا اور اس سے آگے خلیل صاحب  کے ضبط ، حوصلے اور استقامت کا امتحان تھا جس میں وہ اللہ کی مدد سے سرخرو ہوئے۔ اگلے ہی دن ان کو دھوکے سے پروگرام میں بلاکر زلیل کرنے کی کوشش کی گئی، طے کئے ہوئے کنٹریکٹ کو معافی نامے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا، میڈیا سے مکمل بائیکاٹ کئے جانے کی دھمکی دی گئی لیکن انہوں   نے نہ لاکھوں کے کنٹریکٹ دیکھے، نہ اپنے پروفیشن میں فیم کے چھن جانے کو دل پہ لیا، نہ میڈیا کے بائیکاٹ کی دھمکیوں کی ذر ہ بھر پرواہ کی اور اس طوفان بدتمیزی کے آگے اکیلے چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔

اور پھر زمانے نے دیکھا کہ  مغربی  ایجنڈے پر کام کرنے والے کیسے کیسے کردار ایکسپوز ہوئے۔ان کے خلاف بولنےو الے اینکر اور مذہب کا لبادہ پہنے ہوئے بے ضمیر لوگ سوشل میڈیا پر تاریخ ساز طعن و تشنیع کا نشانہ بنے جو آج تک ریکارڈ پر ہے ۔ اس پروگرام پر سوشل میڈیا پہ ہونے والے تبصرے اور آراء  آج بھی ہر ذی شعور کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں ۔

رسوا کرنے  کی سازش کرنے والے خود بے توقیر ہو کر رہ گئے، دھوکہ دینے  والے  خود تقدیر کے دھوکے میں آ گئے،ظاہری اسباب اور طاقت پر بھروسہ رکھنے والے غیبی  ابابیلی قوت   کی کنکریوں کی زد میں آ کر اپنی عزت و ناموری کو ریزہ ریزہ کربیٹھے ۔"موت سے بچ بھی گئے مرنا تو تب بھی پڑے گا" ۔یہ وہ چونکا دینے والا جملہ تھا جو خلیل الرحمان قمر صاحب نے گفتگو  کے بہاؤ میں بول دیا ۔

میں اس دوران ان کے ایک انٹرویو میں کئے جانے والے سوال میں کھو گیاجب ا یک پروگرام میں میزبان  ان کی اس بات کو صحافیانہ دوربین سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھاکہ آپ کہتے ہیں کہ مجھ پر پورے کا پورا مصرعہ بنا بنایا اترتا ہے ، تو گویا آپ خود کوغالب اور اقبال سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ "میں نے  ہر گز ایسا کوئی دعوی نہیں کیا بلکہ خود پر  مالک کے خاص کرم  اور فضل کا ذکر کیا ہے، اس لئےبات کا رخ نہ موڑیں" ۔

ان سے ہونے والی ملاقات میں  غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے نکلنے والے اس جملے سے یہ حقیقت  افشا ہوئی کہ واقعی ان پر جملے بنے بنائے اترتے ہیں اور وہ رکے بغیر انہیں بولتے چلے جا تے ہیں ۔گفتگو کے دوران  انہوں نے  اچانک پوچھا کہ آپ کو اس سوشل ایکٹ کے قانون کی بابت علم ہے جس کو خاموشی سے ایوان بالا سے منظور بھی کروا لیا گیا ہے؟میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو  انہوں نے اس پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے اس بل کے مندرجات میرے فون پر بھیجے جس  کو دیکھ کر میں  اس سے بے خبر رہنے پر شرمندہ بھی ہوا اورکچھ لمحوں کے لئے مبہوت  بھی ۔

"گھریلو تشدد" بل کے مندرجات کے مطابق والدین کا  اپنے بچوں کی پرائیویسی ، آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا، اولاد کے بارے میں ناگوار بات کرنا / شک کا اظہار کرنا  بھی جرم   ہو گا،"معاشی تشدد" کے تحت کسی بھی قسم کے اختلاف ، نافرمانی ، یا اور  کسی بھی وجہ سے بچے کا  خرچہ کم یا بند  کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہےجس پر سزا ملے گی۔ خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہو گا ، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیا ہے ۔

طلاق کی بات کرنا بھی جرم جس پر  سزا ہو گی  ، اسی طرح کوئی غصے والی بات ، اونچی آواز میں بولنا ،  کوئی بھی ایسا جملہ جو کہ جذباتی ، نفسیاتی یا  زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم تصور ہو گا۔اگر باپ نے مندرجہ بالا "جرائم"  میں سے کوئی ایک سرزد کیا تو بطور سزا وہ گھر نہیں بلکہ اسے اولاد سے " محفوظ" فاصلے پر رہ کر  جی پی ایس کڑا پہننا ہو گا ۔ کسی شیلٹر ہوم / یا تھانے میں سزا کاٹنی ہو گی جو 6 ماہ سے  3 سال تک  ہو سکتی ہے  ۔

ایک لاکھ تک جرمانہ  اور ادا نہ کر سکنے پر مزید 3 سال قید اوراس میں ساتھ دینے والے کو بھی برابر کی قید ہو گی  ، یعنی ماں اور باپ دونوں مجرم بنیں گے"۔اس بل کو بجٹ اجلاس  کے دوران انتہائی عجلت میں منظور کیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ایوان میں موجود مذہبی جماعتوں کے نمائندگان نے موہوم سی مخالفت  توکی لیکن وہ اس درجے کی نہیں تھی جس سے اس کے آگے دیوار کھڑی کی جا سکتی۔

پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود دینی جماعتوں سے منسلک افراد کثیر تعداد میں موجود ہیں جنہیں نہ تو اس بل  کے مضمرات سے آگاہ کر کے موثر احتجاج  کا راستہ ہموار کیا گیا اور نہ ہی ان سب نے اس اہم ایشو پر اکٹھے ہو کر آواز اٹھانے کو ضروری سمجھا۔ ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لئے یہ بل اب اسلامی نظریاتی کونسل بھجوا دیا گیا جس کی سفارشات پر آج تک کوئی قانون نہ تبدیل ہوا نہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں بننے والے قوانین میں اسلامی تعلیمات سے تصادم کی جانچ پرکھ  کے لئے بنائے گئے اس ادارے میں بھی عموما ًسیاسی وابستگی پر اس کی  رکنیت انعام کے طور پر دی جاتی ہے  اس لئے یہ آج تک  سفارشات مرتب کرنے کے علاوہ کوئی اہم ذمہ داری سر انجام نہیں دے سکا اور نہ ہی ان  سفارشات کی روشنی میں کسی غیر شرعی بل کا راستہ روکا جا سکا ۔ سوشل ایکٹ کےیوں خاموشی سے پاس ہو جانے اور اس پر دینی حلقے کی مجرمانہ خاموشی پر خلیل الرحمٰن قمرکے لہجے میں ترشی نمایاں ہو رہی تھی، چہرے پر ملال کی شکنیں صاف دکھائی دے رہی تھیں اورزبان سے نکلنے والے لفظ انگارے اور  جملے  شعلوں کی طرح لپک رہے تھے۔

وہ دینی قیادت اور خصوصا پارلیمنٹ میں موجود اتنے زعما کی موجودگی میں اس بل کے خاموشی سے پاس ہو جانے پر  سیخ پا تھے ۔انہوں نے جو سوال مجھ سے کیاوہ میں اب آپ سب  اورخصوصا  دینی مزاج رکھنے والے طبقے کے سامنے رکھتا ہوں۔کیا آپ اس بل کے پاس ہو جانے سے باخبر ہیں اور اگر ہیں تو اس کے لئے انفرادی یا اجتماعی طور پر کیا  اقدامات کئے اور اگر نہیں ہیں تو یہ سوال ان  پر ضرور اٹھائیے جن  کی آپ اندھی تقلید کرتے ہیں ، جن کے حلقہء ارادت میں شامل  ہونے کو باعث فخر جانتے ہیں ، جن کی قدم بوسی آپ کے لئے توقیر کی علامت ہے، جن کے خطابات سن سن کر آپ دیوانےہوئے جاتے ہیں اور جن کے جھنڈے اٹھا اٹھا کر آپ نے  اپنے  بازو شل کر لئے ہیں۔

ان موٹیوشنل سپیکرز کے سامنے بھی یہ سوال رکھئے جن کے کلپ سننے میں آپ  اپنا کافی وقت صرف کرتے ہیں کہ انہوں نے آنے والی نسلوں کے ساتھ پیش آنے والے اس اہم موضوع پر کتنے موٹیوشنل لیکچرز ریکارڈ کر کے آپ کے شعور کو اجاگر کیا ۔خدارا اس بات پر غور کیجئے کہ ہماری دینی ،تہذیبی ، اخلاقی اور معاشرتی قدروں کو مغربی ایجنڈے میں ڈھالنے والے عناصر کتنی خاموشی سے ہمارے قومی قانون ساز اداروں کی راہداریوں میں اپنے قدم جما چکے ہیں۔

ان کے حمایتی ہماری پارلیمان کے اندر براجمان ہیں ۔ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو ان کےہاتھ اب ہمارے گریبانوں سے زیادہ دور نہیں رہ گئے۔مغربی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بنائے گئے اس قانون کو روکنے کے لئے ہر کلمہ گو کو آواز اٹھانی ہو گی، ہر  مسند نشین کو  خاک نشینی اختیار کرنا ہو گی ، ورنہ بقول ان کے "  اکیلا خلیل الرحمن قمر  کیا کر سکتا ہے؟" ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :