ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی۔سادگی اور وقار کا مرقع

ہفتہ 2 اکتوبر 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

میرے عمومی مشاہدے میں دینی شخصیات کے فرزند تین طرح سے  سامنے آتے ہیں۔ان میں زیادہ تر بنی بنائی مسند اور عقیدت  و ارادت مندوں کے سازگار ماحول میں خود کو رنگ کر آسان راستے کا انتخاب کر لیتے ہیں اور یوں سلسلہ چل پڑتا ہے۔دوسری طرح کے فرزند اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل الگ تھلگ ہوتے ہیں  اور وہ اس  دینی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتے اور ہمیشہ گھٹن کا شکار رہتے ہیں اس لئے علم بغاوت بلند کر تے ہوئے کسی اور طرف نکل جاتے ہیں۔

جب انہیں اپنے راستے کی سمت درست نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔تیسری قسم سب سے زیادہ شاندار ہے جو دینی ماحول میں پرورش پانے کے بعد دنیاوی علوم میں بھی کامیابی سے اپنے قدم جماتی ہے اور یوں آہستہ آہستہ دین و دنیا کا حسین امتزاج بن کر ابھرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ نہ صرف  اپنے خاندان کی ناموری کا باعث ہوتے ہیں بلکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر نئی جہات کا اضافہ کر تے ہوئے اپنے بڑوں کے لئے بھی نیک نامی اور بابرکت پہچان کا سبب بنتے ہیں ۔

یہی بچے دراصل بزرگوں کی وراثت کے  صحیحی معنوں میں امین ہوتے ہیں جو  مثبت رویوں کے فروغ اور پہلے سے جاری امور کو نئے اور باوقار انداز سے آگے بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی مرحوم بھی ایسے ہی کامیاب لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے آباء کی دینی وراثت کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے رکھا اور دنیاوی علوم میں بھی اپنے  شعبے میں موجود ممتاز لوگوں کی فہرست میں شمار ہوئے ۔

انہوں نے بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر ہوتے ہوئے نہ تو اپنی دینی شناخت کو کہیں  چھپایا اور نہ ہی دنیاداری کی گرد اپنے قدموں کو لگنے دی۔ دینی شخصیات کے بچوں میں چونکہ گھریلو مسائل عام لوگوں کی طرح نہیں ہوتے  اس لئے ان کا تعلیمی سفر کوئی اتنا شاندار نہیں ہوتا۔لیکن ہمیں اس کی بہترین صورت ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کی شکل میں دکھائی دیتی ہے جنہوں نے خالصتا دینی اور علمی ماحول میں پرورش پائی، اس کے ساتھ دنیاوی تعلیم میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور ان کامیابیوں کو  دینی کاموں  کو آگے بڑھانے میں استعمال کیا۔

شاندار تعلیمی ریکارڈ،میٹرک کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے گریجوایشن، اورینٹل کالج سے ایم اے عربی میں پہلی پوزیشن، اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بطور عربی لیکچرار سروس کا آغاز،بعد ازاں گورنمنٹ کالج  فیصل آباد آمد، پھراسی کالج کے پرنسپل شپ ، ڈائریکٹر کالجز فیصل آباد، ریٹائرمنٹ کے بعد چار سال محی الدین اسلامک یونیورسٹی آزاد کشمیر کے پہلے وائس چانسلر ۔

جو ایک مرحلہ وار بہتر سے بہترین کی طرف رواں ہوتا ہوا قابل رشک سفر تھا۔انہوں نے "برصغیر میں عربی نعتیہ شاعری "کے عنوان سے پی ایچ ڈی کاتحقیقی مقالہ تحریر کیا  جو اس  موضوع پر آئندہ کام کرنے والوں کے لئے حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ قومی نصاب کمیٹی کے ممبر بھی رہے۔اس ساری دنیوی کامیابیوں کے پس منظر میں ایک بات بہت قابل توجہ ہے کہ والد محترم مولانا بشیر احمد صدیقی ؒنے جامعہ مسجد مدن پورہ میں خطبہ جمعہ کی ڈیوٹی لگائی جو انہوں نے  اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اپنی صحت کے آخری کنارے تک جاری و ساری رکھی۔

مرکز تحقیق  فیصل آبادکے بانی و صدر بھی  رہے اور متعدد قومی  علمی و تحقیقی سیمینار منعقد کروائے۔ دروس قرآن کا اہتمام بھی تسلسل سے کرتے رہے۔ بزم فروغ عشق رسول ﷺ کے زیر اہتمام تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس کے ستائیس پاروں کی تفسیر صحت یابی تک بیان کی۔ڈاکٹر صاحب نے ایک اور بہت شاندار کام کیا جو نعت کے شعبے سے تعلق ہونے کے سبب میرے نزدیک بہت اہم اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کام ہے کہ شہر کی سرکاری انتظامیہ سے تعلق ہونے کے سبب " نعت اکیڈمی فیصل آباد" کی بنیاد رکھی ۔

جس کے تحت ان کی سرپرستی میں بچوں کے لیے نعتیہ تربیتی کلاسزکا اہتمام بھی ہوتا رہا اور قومی سطح کی محافل نعت اور تقریبات منعقد کی گئیں جن میں دو بار مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔نعت فورم کے زیر اہتمام پہلی قومی ادبی نعت کانفرنس منعقد کرنے کی سعادت میسر آئی تو اس حوالے سے پاکستان بھر میں نمائندہ شخصیات سے رابطہ کیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کانفرنس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے جس قدر دعاؤں سے نوازا وہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے۔

اپنی علالت کے باوجود  اس کانفرنس میں تشریف فرما ہوئے اور بہت دل گداز گفتگو سے نوازا جس کے دوران اکثر حاضرین کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ انہوں نے  کبھی کسی پر  اپنے صاحب علم اور صاحب مرتبہ  ہونےکا رعب  ڈالنے کی غیر ارادی کوشش بھی نہیں کی ۔ ملنے والے سے اتنی اپنائیت اور محبت سے ملتے کہ اسے ان کے اتنے قد آور ہونے کا احساس تک نہ ہو پاتا۔

بہت سے  تعلیمی انتظامی عہدوں پر رہنے اور زندگی کی تمام تر سہولیات   میسر ہونے کے باوجود لباس اور وضع قطع میں ایک خاص طرح کے وقار اور سادگی کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے مقصد اور مشن کے ساتھ اخلاص کا رشتہ  کسی لمحے کمزور نہیں پڑنے دیا ۔صوفیاء کی مجلس ہو، علماء کی محفل ہو، محققین کی بزم ہو، یا اہل محبت کا جم غفیر ہر جگہ وہ مرکز نگاہ بھی تھے اور محبت و عقیدت کا سر چشمہ بھی۔

اس کے پیچھے شاید ان کی بہت سی شخصی خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ وجہ بھی تھی کہ انہوں نے عہدوں پر  ہوتے ہوئے بھی اپنی دینی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی، صاحب علم ومرتبہ  ہونے کے باوجود  تکبر و نخوت سے خود کو دور رکھا، دنیاوی ما ل و متاع کے تمام ذرائع موجود ہوتے ہوئے بھی سادگی اور وقار کا مرقع رہے۔اللہ کریم ان کی روح کو ہمیشہ آسودہ رکھے اور  محبین و تلامذہ کو صبر کے ساتھ ساتھ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق ارزانی فرمائے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :