عالمگیر وباء ، عالمی تقاضے

جمعہ 17 اپریل 2020

Shahid Afraz

شاہد افراز خان

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے تناظر میں سماج اور معیشت دونوں کو  شدید چیلنجز  درپیش ہیں۔وبائی بحران اس وقت انسانیت کے لیے ایک ایسی کٹھن آزمائش ہے جس پر  قابو پانا ناگزیر ہو چکا ہے اور مزید تاخیر کی صورت میں بھیانک نتائج بھگتنا ہوں گے۔کورونا وائرس کووڈ۔19 نے مختلف ممالک اور خطوں کو سنگین طور پر متاثر کیا ہے اور امریکہ سمیت  ترقی یافتہ مغربی ممالک میں نظام کی کمزوری اور آپسی سیاسی اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔


مستقبل میں یورپی یونین کی اتحاد و یکجہتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔یورپی ممالک اب تک وبا کے سامنے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے سے قاصر ہیں اور نہ ہی  انسداد وبا سے متعلق ایک دوسرے کی امداد و تعاون دیکھنے میں آیا ہے۔

(جاری ہے)

ایسا لگتا ہے کہ صرف اپنے شہریوں کا تحفظ ہی ہر ملک کی اولین ترجیح ہے۔  امریکہ میں ہلاکتوں اور متاثرہ مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے  کے بعد  دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید محاز آرائی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔

امریکی میڈیا ادارے مسلسل صدر ٹرمپ کے زیرعتاب ہیں جبکہ امریکی صدر نے چین کے ساتھ ساتھ  اپنی توپوں کا رخ اب ڈبلیو ایچ او کی جانب کر دیا ہے اور عالمی ادارے کی امداد بھی معطل کر دی ہے۔امریکی میڈیا ملک میں کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاو کو  صدر ٹرمپ کی بدترین ناکامی اور ٹرمپ انتظامیہ کی نااہلی قرار دے رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ترقی پزیر ممالک میں بھی وبا کے باعث  قیادتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور متفقہ موقف اپنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اس صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ وبائی صورتحال نے عالمگیر سطح پر  صحت عامہ اور سلامتی سے متعلق نظام کو بری طرح بے نقاب کیا ہے اور موجود نقائص اور شدید خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔
عالمگیر وبا کے سدباب کے لیے اگر چند اقدامات کی بابت بات کی جائے تو اس وقت عالمی سطح پر "لاک ڈاون" کے خاتمے یا نرمی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں انسداد ی اقدامات میں نرمی کا فوری فیصلہ مناسب نہیں ہے۔

چین کا شہر ووہان لاک ڈاون کا ایک کامیاب ماڈل ہے کیونکہ یہاں 76  روز تک مسلسل لاک ڈاون کے بعد  انسداد وبا کی بہتر صورتحال اور مثبت پیش رفت کے بعد ہی شہر کو دوبارہ  کھولا گیا ہے۔لاک ڈاون کے دوران عوام کی آمد ورفت معطل ہو جاتی ہے اور سماجی فاصلے اختیار کرنے سے وبا کا پھیلاو موئثر طور پر روکا جا سکتا ہے۔ووہان میں لاک ڈاون کے دوران ایک مربوط نظام کے تحت یومیہ اشیائے ضروریہ اور طبی ساز وسامان پہنچایا گیا جبکہ انسداد وبا کے لیے نگرانی ،آئیسولیشن ،نگہداشت اور علاج معالجے کا ایک قابل تقلید طریقہ کار وضع کیا گیا۔

لیکن لاک ڈاون کا فارمولہ تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب عوام  حکومت کا بھرپور ساتھ دے۔اکثر یورپی ممالک میں پولیس کی جانب سے باشعور عوام کو تفریحی مقامات پر یہ باور کروانا پڑا کہ لاک ڈاون کا مطلب تفریحی مقامات کا رخ کرنا ہرگز نہیں ہے۔
اسی طرح عوامی مقامات پر ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دینے سے بھی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

پاکستان سمیت اکثر ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کے شہری بھی ماسک کے استعمال سے کتراتے ہیں   جو قطعاً مناسب نہیں ہے۔ً اس حوالے سے تو ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ماسک کا استعمال ایک فرد کو وائرس کے خطرے سے بچانے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ وبائی صورتحال کے تحت عائد پابندیاں اٹھانے کے بعد بھی بازاروں ،تجارتی مراکز ،پبلک ٹرانسپورٹ، طبی و تعلیمی مراکز سمیت ایسے تمام اداروں میں ماسک کی پابندی کو لازمی قرار دیا جائے جہاں عوام کی آمد ورفت زیادہ ہوتی ہے۔


انسداد وبا کے حوالے سے متاثرہ افراد کی فوری تشخیص اور آئیسولیشن انتہائی اہم ہے لیکن اکثر ممالک میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور متاثرہ فرد سے دیگر افراد تک وائرس کی منتقلی تیزی سے جاری رہتی ہے۔یہاں ملک کے بائیو ٹیک اور تحقیقی اداروں کا کردرا انتہائی اہم ہے اور عوامی  رویے بھی ۔ جان بوجھ کر  علامتی معلومات چھپانے کا رحجان بھی اکثر دیکھا گیا ہے  جس کی حوصلہ شکنی لازم ہے ۔

میڈیا اس ضمن میں عوام کو آگاہی  دے سکتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ آپ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ معلومات چھپانے سے آپ اپنے اہل خانہ اور آس پاس دیگر  کئی افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔اسپتالوں کے آئیسولیشن مقامات پر طبی عملے کو مخصوص حفاظتی ملبوسات کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی بھی ایک لازمی چیز ہے کیونکہ طبی عملہ انسداد وبا میں ایک مضبوط ڈھال ہے جس کا تحفظ ضروری ہے۔


جب ہم چین کے کامیاب ماڈل کو سمجھںے کی کوشش کرتے ہیں تو   انسداد وبا کی کوششوں میں ایک اہم پہلو " ہیلتھ ڈیٹا بنک" بھی رہا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہر ایک شخص کی جسمانی صحت سے متعلق معلومات کو یکجا کیا گیا مثلاً  اُس کی سفری معلومات ، رہائشگاہ کا پتہ ، یومیہ ٹمپریچر،علامات اور دیگر معلومات وغیرہ ۔اس بنیاد پر فوری عملی اقدامات کیے گئے اور قیمتی جانیں بچائی گئیں۔

پاکستان میں رضا کاروں کی مدد سے  یہ اعداد و شمار ترتیب دیے جا سکتے ہیں ،ووٹر لسٹیں بھی موجود ہیں اور عوامی نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں موئثر طور پر  ڈیٹا بنک کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی بھی انسداد وبا کا اہم اور موئثر تقاضا ہے۔ چین میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے 5G  ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس ،روبوٹس ،ڈرون اور دیگر جدید معیارات اپنائے گئے جسے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔

اس ضمن میں متعدد ممالک کے طبی اور تکنیکی ماہرین کے درمیان مسلسل تبادلہ اور تعاون لازم ہے تاکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علاج معالجے سے متعلق معلومات کے تبادلے سے وائرس کا راستہ روکا جا سکے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اکثر پاکستانی جامعات میں طلباء کی جانب سے تحقیقی کاوشیں سامنے آ رہی ہیں۔
وبا کی سنگین صورتحال میں عوامی شمولیت ، فتح کی بنیاد ہے۔

پاکستان جیسے گنجان آباد ملک میں عوام کو  "آئیسولیشن" کے نظریے کی حقیقی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ حکومت رہنماء ہدایات جاری کر سکتی ہے لیکن عمل درآمد عوام کی ذمہ داری ہے۔اس بات کا ادراک لازم ہے کہ ایک متاثرہ فرد کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب ہو سکتا ہے ، ایسا ہرگز مت سوچیں کہ میرے گھر سے باہر نکلنے سے کیا ہو جائے گا۔لازمی نہیں کہ آپ وائرس سے متاثر ہوں مگر یہ اندیشہ ضرور ہو سکتا ہے باہر آپ وائرس کا شکار ہو جائیں لہذا اپنی سلامتی اور اپنے پیاروں کے تحفظ کے لیے کچھ عرصہ خود پر جبر کرتے ہوئے " آئیسولیشن" میں رہنے کی پالیسی اپنائیں تاکہ جس طرح چینی عوام نے نظم وضبط سے ایک قلیل مدت میں نوول کورونا وائرس کو شکست دی بالکل اسی طرح پاکستان سے بھی خوف کی یہ پرچھائیں ہمیشہ کے لیے دور ہو جائیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :