
مودی سرکار اور کووڈ۔19 کے خطرناک وار
جمعرات 9 جولائی 2020

شاہد افراز خان
بھارت کے بڑے شہر نیو دہلی اور ممبئی بھی وبا کے باعث بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ ناقدین کے خیال میں ملک میں ٹیسٹنگ کی بھی محدود صلاحیت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ متاثرہ مریضوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
(جاری ہے)
اگر ممبئی کی ہی بات کی جائے تو یہاں دھاراوی جھونپڑ پٹی کا شمار ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادیوں میں کیا جاتا ہے جبکہ ملک بھر میں بے شمار ایسی بستیاں موجود ہیں جو ناکافی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی سے محرومی کے سبب وائرس کے خاموش پھیلاو کا موجب ہو سکتی ہیں ۔اسی طرح بھارت کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں غربت سے دوچار آبادی کا ایک بڑاحصہ رہائش پزیر ہے لہذا ملک میں وبا کی سنگینی شدید رخ اختیار کر سکتی ہے۔ماہرین نے یہ خطرہ بھی ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں وبائی صورتحال نومبر کے وسط تک عروج پر ہو سکتی ہے اور آئی سی یو بیڈز ، وینٹیلیٹرز اور دیگر طبی سامان کی کمی ہو سکتی ہے۔
ایک جانب اگر بھارت میں نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب مودی سرکار بھی اپنے اوچھے ہتھکنڈوں اور توسیع پسندانہ عزائم سے خطے کے امن کو تباہ کرنے کے درپہ ہے۔ پندرہ جون کو وادی گلوان میں چین۔بھارت سرحدی دستوں کے درمیان ہونے والی جسمانی جھڑپ اور تصادم کو ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی بجائے کشیدہ صورتحال اور تناو میں کمی لانے کے خود سرحدی علاقے لداخ کے دورے پر نکل پڑے اور فوجیوں سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر اپنی توسیع پسند ذہنیت اور اشتعال انگیز ارادوں کا کھل کر اظہار کیا۔دنیا یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ مودی دونوں ممالک کے درمیان قیام امن کے لیے رہنماء کردار ادا کریں گے لیکن اُن کے لداخ کے دورے نے بھارتی قیادت کی اشتعال انگیز اور بالادستی پر مبنی سیاست کی اصلیت بے نقاب کر دی۔
مودی کا فوجیوں سے خطاب بھی قول و فعل میں تضاد سے بھرپور تھا۔چین کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ توسیع پسندی کا دور اب ختم ہو چکا ہے اور توسیع پسند قوتیں دنیا کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ رہی ہیں ۔مودی جی نے بالکل درست کہا کہ واقعی اب ایسی قوتوں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے اور چین نے اپنے عملی قدم سے بھارت کو باور بھی کروا دیا کہ اگر اُ س کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ بھارت کی شرمندگی اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔چین،پاکستان ،نیپال یہ تینوں ممالک تو اس وقت بھارتی اشتعال انگیزی کا براہ راست سامنا کر رہے ہیں لیکن خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش ،سری لنکا وغیرہ بھی بھارتی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
چین پر الزام تراشی سے قبل بھارت کو اپنا ماضی دیکھنا چاہیے کیونکہ 1962 میں اسی توسیع پسند ذہنیت کے باعث بھارت کو چین کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔اُس وقت دونوں ممالک کے درمیان اکیس سو میل طویل "حقیقی کنٹرول لائن" پر اتفاق کیا گیا تھا مگر بھارت کی جانب سے متعدد مرتبہ اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی تنازعے کی اصل جڑ ہے۔پاکستان کے ساتھ بھی لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی بھارت کا وطیرہ ہے اور اب چین کے ساتھ سرحد پر چھیڑخانی بھی خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے بھارتی رویے کا مظہر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے ماضی کے تنازعات سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ابھی تین برس قبل ہی ڈوکلام میں چین اور بھارت کے سرحدی دستوں کے درمیان ایک کشیدہ صورتحال دیکھنے میں آئی تھی اور اس مرتبہ پندرہ جون کو تو بھارتی دستوں نے سرحد عبور کرتے ہوئے چینی سرزمین میں گھسنے کی کوشش کی جو براہ راست ایک اشتعال انگیز کارروائی ہے۔اس کارروائی کا خمیازہ اسے کئی فوجیوں کی ہلاکت کی صورت میں برداشت کرنا پڑا ہے اور عالمی و علاقائی سطح پر شرمندگی الگ اٹھانا پڑی ہے۔اس وقت اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک مثبت پیش رفت دیکھنےمیں آئی ہے جسمیں فریقین نے دو طرفہ سرحدی صورتحال کی بہتری کے لیے چار امور پر اتفاق کیا اور دونوں اطراف سے فرنٹ لائن پر موجود فوجیوں کو جلد از جلد " ڈس اینگیج" کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے لیکن اس سب کا دارومدار مودی حکومت کے رویوں پر ہے کہ وہ کیسے طے شدہ امور پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مودی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ یہ وقت عالمگیر وبا کے خلاف "اتحاد و تعاون" کا ہے ناکہ علاقائی تنازعات میں الجھنے کا ، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کی کووڈ۔19 کے خلاف غیر موثر پالیسی کی بدولت پہلے ہی بارہ کروڑ سے زائد لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح بھی رکارڈ ستائیس فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ایسے میں محاز آرائی یا کسی مہم جوئی کی صورت میں بھارت کو مزید نقصان برداشت کرنا ہو گا اور بھارتی عوام میں اب اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کی قیمت چکا سکیں۔لہذا بہتری اسی میں ہے کہ اشتعال انگیز روش ترک کرتے ہوئے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور انھیں کووڈ۔19 کے عفریت سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد افراز خان کے کالمز
-
چین کا معاشی آوٹ لُک 2022
پیر 10 جنوری 2022
-
افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
چین کا عوامی حاکمیت کا تصور
منگل 7 دسمبر 2021
-
اقتصادی تعاون کا نیا ماڈل
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
جدوجہد سے عبارت 100 سال
جمعہ 19 نومبر 2021
-
حقیقی وژنری قیادت
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
عالمی سطح پر"میڈ اِن چائنا" کی اہمیت
ہفتہ 6 نومبر 2021
-
علاقائی انضمام سے مشترکہ ترقی کا خواب
جمعہ 29 اکتوبر 2021
شاہد افراز خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.