نیرو پوائنٹ

جمعرات 18 اکتوبر 2018

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

وہ سر تا پا تقدس میں لپٹی ہوئی تھیں۔ماحول کو تقدس نے اپنے گھیرے میں لِیا ہُوا تھا۔ انہوں نے ایک توبہ شِکن مقدس انگڑائی لی ،پاوٴں سے کافی ٹیبل کوذرا سا آگے دھکیلا، سائیڈ ٹیبل سے ڈیوی ڈوف گولڈ کا پیکٹ اٹھایا ، ایک سگریٹ نکالی اور ایسی حرکت کی کہ میں دیکھتا ہی رہ گیا ۔ وہ سگریٹ کو الٹا کرکے پیکٹ پر مار رہی تھیں۔کمرے میں سگریٹ کے پیکٹ سے ٹکرانے کے علاوہ کوئی آواز نہیں تھی، ہر طرف نیوزی لینڈ کی وادیوں جیسا گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔

انہوں نے سفید پاکیزہ سگریٹ کو اپنے مقدس ہونٹوں میں دبایا اور کافی ٹیبل پر رکھے سنہری لائٹر کی طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اپنی منحنی انگلیوں اور انگوٹھے سے لائٹر تھاما اور جلا کر ان کے قریب لے گیا انہوں نے سگریٹ سلگائی اور ایک طویل کش لیا۔

(جاری ہے)

ان کے مقدس ہونٹوں سے نکلتا سگریٹ کا سفید دھواں ہمالیہ کی چوٹیوں پر اٹھکیلیاں کرتی بدلیوں کی طرح اوپر کی طرف جا تے ہوئے تقدس کی سفید چادر تانتا جا رہا تھا ۔

میری نظریں دھویں کا پیچھا کر رہی تھیں اور ان کی نظریں لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے برگد کے درخت پر دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھی چِیلوں پر تھیں۔ چِیلوں کی متلاشی نگاہیں اِدھر اُدھر منڈلا رہی تھیں۔ مارگلہ کے دامن میں سردی آنے سے ذرا پہلے والا موسم، رخصت ہوتی ہوئی بہار اور آتی خزاں، اس جناتی درخت پر بھی اپنی چھاپ لگائے ہوئے تھا۔

اس قصے کو ذرا دیر کے لئے یہیں چھوڑتے ہیں۔ جارجیا کی ایک گلی سے گذرتے ہوئے سُر بکھیرتی ایک سحر انگیز آواز نے میرے قدم روک لئے ۔ کوئی جارجین حسینہ اپنی مدھر آواز میں گا رہی تھی وے گجُرا وے، وے گُجرا وے، تیرے باجھوں دنیا ۔ ما بعد الطبیعات اور ما بعد التاریخ کے مطابق گجروں کا اصل وطن جارجیا ہے۔یہ لمبے تڑنگے مضبوط جسم کے لوگ تھے، اچھا کھانا اور اچھا پہننا ان کا شیوہ تھا، یہ بہت خوشحال بھی تھے۔

سوا پندرہ لاکھ سال پہلے جارجیا کے سردار گجرانوسار نے خزانے بانٹنے کے لئے جنوبی ایشیا کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ ان کے اس فیصلے سے جارجیا میں گجروں کی نسل ناپید ہوگئی لیکن آج بھی جارجیا کے مہ خانوں کے پاس سے گذرتے ہوئے دودھ کی مسحور کن مہک آتی ہے اور جارجیا کی گلی گلی میں سوئمنگ پول بنے ہوئے ہیں۔ اس قصے کو بھی یہیں رہنے دیں۔ اب آپ موٹو کو ہی دیکھیں۔

ان کا وزن بڑھ چُکا ہے ، یہ لا غر ہو چکے ہیں، ان کی بھوں بھوں اپنی کشش کھو چکی ہے ، یہ چڑ چڑے بھی ہوگئے ہیں، ان کو غصہ بھی جلدی آجاتا ہے، ان کے یو ٹرن بہت بڑھ چُکے ہیں، یہ تھوکا ہوا بھی بہت چاٹنے لگے ہیں، معاملات ان کے کنٹرول سے نکلتے جارہے ہیں۔ اگر موٹو نے یہ پانچ کام نہ کئے تو مریخ کی تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، پلوٹو پر کوئی ان کا نام بھی لینا پسند نہیں کرے گا، اور نیپچون ان پر تھوکے گا۔

جب میں گذشتہ برس مریخ کے دورے پر گیا تو اپنا دِل وہیں چھوڑ آیا تھا ، واپس آکر چیف صاحب والا کالم دکھا کر سستے اسٹنٹ والا دِل لگوایا۔یہ دِل مجھے تقریباً مفت ہی پڑا اگر میں یہی دِل ٹانگا نیکا سے لگواتا تو کثیر زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ۔ چیف صاحب بتارہے تھے کہ یہ سستے اسٹنٹ والے دِل دراصل چائنا سے سی پیک کے تحت مفت مل رہے تھے مگر پچھلی حکومت کمیشن کے چکروں میں کھربوں ڈالر کھا رہی تھی۔

پار سال میں سماٹرا کے جنگلوں سے ہوتا ہُوا بالی کے ساحل پر لنگر انداز تھا ، گنگناتی ہوئی مر مریں ریت بل کھاتی لہروں کے ساتھ کیکی چیلنج میں مشغول تھی، میں اپنا جگر انہی مدہوش فضاوٴں میں بے فکرا ہو کر چھوڑ آیا تھا ۔ ارادہ تھا لاہور کے جگر کے نئے ہسپتال سے پیوند کاری کروالوں گا وہ تو بھلا ہو چیف صاحب کا انہوں نے یہ ساری ’ کرپشن‘ روک دی۔

اب سارا بھارت چیف صاحب کو دعائیں دیتا ہے ، مریض دوبارہ ایمانداری سے لاکھوں روپے خرچ کر کے بھارت کا رُخ کر رہے ہیں۔ مجھے بھی نیا جگر لگوانے کے بہانے چندی گڑھ کی مصنوعی جھیل کنارے مسمات ستوندر کور کے ساتھ جاگنگ کا موقع مِل گیا اور میں نے ٹھیٹھ پنجابی میں جاگنگ کی ۔ میں نے ٹاوٴن والے ملک صاحب سے صاف کہ دِیا کہ اگر وہ یہ آٹھ کام نہ کرتے تو نیپال کے جنگلوں میں بھی اُن کے ٹاوٴن لہلہا رہے ہوتے، لُڈن جعفری سینیٹ کے چیئرمین ہوتے اور شمیم الیکٹریشن کا لڑکا دنیا کا دوسرا بل گیٹس بن چُکا ہوتا۔

اس ملک میں اگر رہنا ہے تو آپ کو یا تو کراچی کا فالودے والا ہونا چاہئے یا جنوبی پنجاب کا باورچی اور مالی۔ میری پیش گوئی سُن لیں ، میرے مُنہ میں خاک اگر ملک صاحب کی پنکچر شدہ فائل میں ہوا نہ بھری گئی تو یہ اپنا سارا کاروبار سمیٹ کر واپس لالہ موسیٰ شفٹ ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :