بارش‘ شہر ڈوبتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا

منگل 1 ستمبر 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

ایک زمانے تک محکمہ موسمیات جو کچھ کہتا تھا اس کے اُلٹ ہوا کرتا تھا اور اس محکمے کو خوب گالیاں پڑتی تھیں اور آج یہ محکمہ جو پیش گوئی کرتا ہے وہ درست ثابت ہوتی ہے اور ہم اس کی پیش گوئی کی روشنی میں اپنے معمولات سرانجام دے سکتے ہیں لیکن یہ بات عوام کی حد تک ہے‘حکومتیں آج بھی شاید اس محکمے کے کہے کو ”دیوانے کی بڑ“سمجھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ چیخ چیخ کر بتانے کے باوجود ذمہ داران کی جانب سے مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔

ایک ادارہ دوسرے ادارے پر ‘ ایک وزارت دوسری وزارت پر ذمہ داری عائد کرکے خود کو ہر فرض سے بر ی الذمہ سمجھ بیٹھی ۔ایک جانب وفاق صوبے کی اور صوبہ وفاق کی ٹانگیں کھینچتا رہا دوسری جانب ابر رحمت عوام کیلئے زحمت بن کر انہیں جانی اور مالی نقصان پہچانے کا سبب بنتا رہا۔

(جاری ہے)

حیف صد حیف اس بدترین صورتحال میں بھی لوگوں نے سیاست چمکانے کا کاروبار ترک نہ کیا اور تسلسل کے ساتھ ”ڈرامے بازی“کی جاتی رہیں اورسرجانی ٹاﺅن سے لے کر ڈیفنس تک کراچی شہری سیلاب میں بہہ گیا۔


گو کہ بارشیں صرف کراچی میںنہیں ہوئیں بلکہ ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں بالخصوص بلوچستان میں بھی بارش اور سیلاب کی تباہ کاریاں سامنے آئی ہیں لیکن وہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر‘ صنعتی حب اور پاکستان کی شہہ رگ نہیں ہیں اس لئے سب سے زیادہ حیرت اس شہر کی تباہی پر ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ کراچی میں بارشوں کا نوے سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے‘ اب نوے سالسے کراچیکی بارشوں کو دیکھنے والے ہی حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے‘ ہم اس کے عینی شاہد نہیں ہیں لیکن آج ہم نے جو دیکھا اسے تاریخ دان کس طرح سے قلم بند کریں گے ‘ اسے اللہ کا عذاب قرار دیا جائے گا یا ذمہ داران کی نااہلی ؟
 قصہ کچھ یوں ہے کہ دنیا ماحولیاتی تبدیلی کی زد پر ہے اور پاکستان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ساتواں ملک ہو سکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی کئی نشانیوں میں سے ایک شدید موسمی حالات ہیں۔ خشک سالی‘ درجہ حرارت میں اضافہ‘ شدید بارشیں‘ سموگ اور ہیٹ ویو یہ سب شدید موسمی حالات ہیں اور ہم ان سے کسی حد تک متاثر ہو بھی چکے ہیں۔پاکستان بالخصوص ساحلی شہر ہونے کے باعث کراچی کے ان موسمی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ پچھلے 73 برسوں میںکراچی کی آبادی تین گنا بڑھی اورتسلسل سے اس شہر کی آبادی بڑھتی ہی رہی‘ کسی نے کبھی یہ سوچنے کا تکلف نہ کیا کہ آبادی کے اس بے ہنگم طوفان کو کسی کنارے لگایا جائے کیوں کہ فالٹ لائنز پر بسا کراچی‘ زلزلے اور سائیکلون سے متاثر ہو سکتا ہے۔

یہ شہر ٹیلوں‘ پہاڑیوں اور ٹیکریوں پر بسا ہوا ہے‘ یہاں پانی کے قدرتی بہاو ¿ کی کچھ گزرگاہیں تھیں۔ بارش کا پانی بلند شہری علاقوں سے نشیبی علاقوں میں جا کر ان گزرگاہوں یا نالوں سے ملیر‘لیاری اور دوسری ندیوں میں اتر جاتا تھا۔بدقسمتی سے ان تمام جگہوں پرآبادیاں بنا دی گئیں۔آ ج بھی کراچی میں بارش کا پانی کھڑا نہیں رہتا بلکہ اپنے قدرتی راستے پر بہتا نظر آتا ہے لیکن اسے ندی نالوں تک پہنچنے کا راستہ نہیںملتا ۔

تجاوزات کے علاوہ کراچی کی صورتحال کی ذمہ داری ”کوڑے“پر عائد ہوتی ہے ‘ اربوں روپے کا یہ کوڑانکاسی آب کے راستوں کو بند کردیتے ہیں ۔
آج وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ندی نالوں پر قائم تجاوزات کو ہٹا دیں گے تاہم(حسب توقع ) انہوںنے ان تجاوزات پر قائم بلند و بالا عمارات کے خلاف کارروائی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ و ہ انہیںنہیں ہٹا پائیں گے اور یقین جانئے کہ وہ ندی نالوں کی تجاوزات بھی نہیں ہٹاپائیں گے۔


ان بارشوں میں جو ہوگیا وہ ہوگیا‘ بارشوں کے ایک یا دو اسپیل مزید آسکتے ہیں لیکن ہر سال یہ سلسلہ گزشتہ سال سے زیادہ شدید ہوگا اورآنے والے برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیاں مزید تیزی سے رونما ہوں گیلہٰذا وزیر اعلیٰ صاحب کو یہ کڑوا گھونٹ تو پینا ہی ہوگا‘ کیوں کہ کسی بھی بڑے سانحےسے بچنے کیلئے شہر کے نشیبی علاقوں اور پانی کی گزرگاہوں‘نالوں وغیرہ سےآبادیاں ہٹا کر ا کہیں اور آباد کرانے کی ضرورت ہے۔

کراچی کی قدرتی کھاڑیاں، جوہڑ اور نالے بحال کرالئے جائیں تو آنے والے وقتوں میں یہ شہر بچ سکتا ہے۔بڑے شہروں کو بے ہنگم طور پر بڑھنے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ہر جگہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہروں کو عمودی آباد کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ زمین فطرت اور عناصر کیلئے چھوڑ دی جائے تو اب بھی بہت بہتریآ سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہاوسنگ کالونیوں پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور پرانی کالونیوں کو ہٹا دیا جائے۔

نکاسی آب کے نظام کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا جانا چاہئے کہ برسات کا پانی اس میں سماسکے۔
پانی برس سے چلا جائے گا‘ مسائل اور مصائب اٹھانے والے رو دھو کر اپنی معمول کی زندگی میں محو ہوجائیں گے‘ جیسے ہی سڑکیں خشک ہوئیں ‘یہ ساری باتیں ہوا میں تحلیل ہوجائیں گی‘ ہم بھی بھول جائیں گے اور حکمران تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :