لاہور میں خاتون کےساتھ زیادتی ‘ زمین پھٹتی ہے نہ آسمان کانپتا ہے

جمعرات 10 ستمبر 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

ایک ہفتہ کے اندر اندر ایک چھوٹی سی پانچ سالہ مروہ کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا‘ گل پرنا نامی خواجہ سرا ایکٹوسٹ کو زیادتی کا نشانہ بنا کر مار دیا گیااور چار بچوں کی ماں کو اپنے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر یہ ہوکیا رہا ہے ؟ حکمران کہاں ہیں‘ ذمہ داران کیا کررہے ہیں اور پاکستان کی عوام کس مقام پر کھڑی ہوئی ہے؟
موٹر وے جہاں جگہ جگہ پر کیمرے نصب ہیں ‘ مجرمان گاڑی کا شیشہ توڑتے ہیں‘ خاتون کے ساتھ لوٹ مار کرتے ہیں‘ موٹر وے کے گرد لگی جالی کاٹ کر خاتون کو گھسیٹتے ہوئے جھاڑیوں میں لے جاتے ہیں‘ بچے ساتھ ہیں اور یقینا ان کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہوں گی ایسے میں موٹروے پولیس خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی اورنام نہاد ریاست مدینہ کے حکمران سو رہے بھی سکون کی نیند سورہے تھے۔

(جاری ہے)

شاید انہیں یاد نہیں کہ ریاست مدینہ کو سنبھالنے والے راتوں کی نیند کو عوام کے مفادات پر قربان کردیا کرتے تھے۔ بات کرنے اور عمل کرنے میں جو فرق ہے وہ آج ہمیں پاکستان میں واضح نظر آرہا ہے۔
لوگ لٹ جاتے ہیںکوئی شنوائی نہیں ‘ بچے جان سے چلے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ‘ نہ زمین پھٹتی ہے اور نہ آسمان کانپتا ہے ۔اسمبلیوں میں بیٹھ کر بل پاس کرکے سمجھا جاتا ہے کہ اپنا فرض ادا کردیا شاید حکمران ٹولہ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ لوگ چند روز شور مچائیں گے اور پھر خاموشی ہوجائے گی لیکن کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے جن بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ بچے اور ان کا پورا خاندان تاحیات ذہنی اذیت کا شکار رہے گا۔

ان کی اپنی ہی چیخیں تاعمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری ایک زیرک اور کہنہ مشق سیاستدان ہیں‘ بولنے کا ہنر بھی خوب جانتی ہیں لیکن ساری دنیا کے بول چکنے تک وہ اس واقعہ پر خاموش رہیں اور پھر جب ٹرینڈ لسٹ پر لوگ حسب توفیق انہیں برا بھلا بول چکے تو وہ میدان میں آئیں اور کہا کہ لاہور موٹر وے کے داخلی رستے پر اجتماعی زیادتی کے خوفناک واقعے کے حوالے سے وزارت انسانی حقوق نے فوری طور پر پولیس سے کارروائی کی رپورٹ مانگی ہے جب کہ ایف آئی آر کی کاپی اور رپورٹ وزارت انسانی حقوق کے پاس موجود ہے۔


بعض زخمو ں کا علاج فوری طور پر کیا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں زیادتی کے مجرمان بے لگام جانوروں کی طرح ”آدم بو‘آدم بو“ چلاتے پھر رہے ہیں‘ جسے چاہتے ہیں دبوچ لیتے ہیں‘ بھنبھوڑ ڈالتے ہیں اور پھر دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ یہ وہ ملک ہے جہاں کی عوام کو انصاف میسر نہیں ہے ‘ جہاں لوگوں سے ٹیکس تو وصول کیا جاتا ہے لیکن ان کے بنیادی حقوق پورے نہیں کئے جاتے۔

یہ وہ اسلامی مملکت ہے جہاں کی وفاقی حکومت ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ”بھنگ “کی کاشت کی منظوری دے کر اسے اپنا کارنامہ قرار دیتی ہے۔
ایک تماشہ ہے ‘ بے سکونی ہے‘ ذہنی دباﺅ ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ حکمرانوں کے اپنے بچے اوربڑے بڑے گھر ملک کے باہر موجود ہیں۔ ملک و قوم پر جب بھی کوئی آنچ آئی انشاءاللہ تعالیٰ یہ حکمران ہمیں وطن سے باہر ہی ملیں گے لیکن وہ لوگ جو تہتر سال سے وطن کی محبت میں پستے چلے آرہے ہیں ان کا کیا بنے گا۔

کیا ان کی بچیاں اور مائیں یونہی سرراہ لٹتی رہیں گی اور حکمران خواب و خرگوش کے مزے لوٹتے رہیں گے ؟
ایک سوال ‘ ان سے جو صاحب اختیار ہیں ۔ اگر خدانخواستہ آپ کی بیوی‘ بیٹی‘ بہن یا ماں کے ساتھ ایسا کوئی سانحہ ہوجائے تو کیا آپ اسمبلیوں کے بل پاس ہونے اور اس کے بعد فیصلے کا کریں گے ؟
سب جانتے ہیں کہ جن کے پاس طاقت ہے اولاًان کی آل اولاد یہاں ہے نہیں‘ دوئم اگر ہے بھی تو ملک کی سیکیورٹی فورس ان کی حفاظت پر معمور ہے سوئم اگر کہیں کوئی ان کے گھر کی طرف تیڑھی آنکھ اُٹھا کر دیکھتا بھی ہے تو اس کی آنکھیں ہی نہیں جسم سے روح تک نوچ لی جاتی ہے۔


آج اگر یہ واقعات اتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں تو اس کی وجوہات بھی ہیں اور سب سے بڑی وجہ ہے مجرمان کو قرار واقعی سزائیں نہ دیئے جانا ۔ لوگوں کو پتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم گرفتار ہوں گے اور پھر ”لے دے “ کر چھوٹ جائیں گے۔ اگر مختاراں مائی کے مجرمان کو سرعام پھانسی دے دی جاتی تو آج مروہ بچ جاتی ‘ آج کسی کو جرات نہ ہوتی کہ وہ کسی ماں کو اس کے بچوں کے سامنے بے آبرو کردیتا ۔
ہم صرف لکھ سکتے ہیں‘ سوچ سکتے ہیں اور رو سکتے ہیں‘ عملی اقدامات تو ”ریاست مدینہ “ بنانے والوں کی ذمہ داری ہے ‘ اب دیکھئے کہ آیا وہ اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں یا پھر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ جب عوام ایسے مجرمان کو ازخود پکڑ کر زندہ جلادے یا پھانسی پر لٹکا دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :