بریسٹ کینسر سے آگاہی مہم ”پنک ٹوبر“

پیر 12 اکتوبر 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

اکتوبر کے مہینے کو پنک ٹوبر(Pinktober)کے نام سے منسوب کیاگیاہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لئے ملک بھرمیں بھرپور مہم چلائی جائی ۔ اس مہینے کے دوران ملک بھرمیں واکس،سیمینارزاورکانفرنسوں کاانعقادکیاجائے گا اوراس بیماری کے متعلق آگاہی کے لئے طالبات کے تعلیمی اداروں پرتوجہ مرکوزکی جائے گی۔

وزارت صحت ملک بھرمیں نامزدمقامات پراسکریننگ سنٹرزکے ذریعے چوبیس گھنٹے معاونت کی فراہمی کے انتظامات کرے گی تاکہ ملک کے اندر اس بیماری کے باعث ہونے والی اموات میں کمی لائی جاسکے۔ ریڈیوپاکستان دوردرازاوردیہی علاقوں میں اس بیماری کے متعلق آگاہی پیداکرنے کے لئے پروگرام پیش کرے گا۔
پاکستان میں گزشتہ15 سے 16سال سے پستان کے سرطان یا بریسٹ کینسر کا خواتین میں جس تیزی سے پھیلاؤ عمل میں آیا ہے اس کے پیش نظر تو یہ مہم کئی سال قبل ہی شروع کردی جانی چاہئے تھی اور صرف ایک مہینہ نہیں بلکہ سارا سال اس مہم کے تحت خواتین کو آگاہی دی جانی چاہئے تھی کیوں کہ مجھے یاد ہے کہ آج سے تقریباً ایک دہائی قبل جب ایسے ہی کسی کے بارے میں سننے کے بعد میں نے لیاقت نیشنل اسپتال میں اس مرض کی ماہر ڈاکٹرروفینہ سومرو سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھے اس مرض کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔

(جاری ہے)

اس وقت انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر آج ہماری خواتین نے اس مرض کے حوالے سے اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت نہیں کی تو مستقبل میں اس مرض کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوسکتا ہے۔آج اُن کا خدشہ بدترین صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایک ہی خاندان میں کئی کئی خواتین اور بچیوں کا اس مرض میں مبتلا ہونا عام سی بات نظر آرہی ہے۔
چھاتی کا سرطان کوئی نیا مرض نہیں ہے بلکہ زمانہ قبل از مسیح میں بھی مصر میں ماہرین طب نے چھاتی کے سرطان میں مبتلا 12 مریض دریافت کرلئے تھے مگر خدا جانے اس وقت کیا طریقہ علاج اختیار کیا گیا ہو گا کیوں کہ سرجری کے ذریعے سرطان کو ختم کردینے کا آغاز 1500ء ہوا ۔

آج تک ماہرین طب صرف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سرجری کوئی حتمی‘ دائمی اور شافی علاج نہیں بلکہ یہ وقتی طور پر مریض کی تکلیف دُور کرنے کا ذریعہ ہے اور زیادہ تر کیسوں میں سرطان کچھ مدت کے بعد پھر پھوٹ نکلتا ہے۔اب تک سرطان پر قابو پانے کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہوچکا ہے لیکن میڈیکل سائنس آج بھی اس مرض کی پیچیدگیوں کو ناقابل فہم کہتی ہے جنہیں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘تاہم اس دوران سرطان کے مریضوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ عمل میں آرہا ہے۔


ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں 16 فی صد عورتوں کو چھاتی کے سرطان کا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 5 لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔برطانیہ میں ہر سال تقریباً45 ہزار بریسٹ کینسر کے کیسوں کی تشخص کی جاتی ہے جبکہ وہاں کی ہر 9میں سے ایک خاتون کو سرطان ہونے کا امکان ہوتاہے۔یہ مرض اسی انداز میں جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی بہت پھیل چکا ہے جہاں 40 ہزار خواتین ہر سال رحم یا بچہ دانی کے سرطان کا شکار ہوتی ہیں۔

تقریباً10 ہزار اوریز یا بیضہ دانی کے سرطان جب کہ 48سے 50ہزار خواتین سینے کے سرطان کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔پاکستان میں ہر8میں سے ایک عورت اس مرض میں مبتلا ہے‘ جب کہ ہر سال40ہزار خواتین اس مرض کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین کے تقریباً 90ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں جو ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔


پاکستان میں اس مرض کے تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ ہماری معاشرت اور ثقافت ہے۔ ہماری خواتین اپنے پوشیدہ امراض کے حوالے سے طبی ماہرین سے بات کرنے میں بھی جھجکتی ہیں یہی وجہ ہے ان کی ایسی بیماریاں آخری مرحلے پر جاکر ہی شناخت کی جاتی ہیں ۔ہماری غربت ‘ تعلیم اور شعور کی کمی‘ مہنگا علاج‘ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی ناکافی سہولیات اور خواتین طبی ّ ماہرین کی کمی اس مرض میں اضافے کی بنیادی وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔

ہارمونز کا توازن بگڑنے سے بھی سینے کے سرطان کا امکان بڑھ جاتا ہے ایام سے قبل جب ایک یا دونوں چھاتیوں میں دور محسوس ہو۔ تھکاؤٹ ‘پیٹ میں گیس‘ سر میں درد‘ مزاج میں تیزی‘ افسردگی اور چڑ چڑاپن نمایاں ہو تو اسے سنجیدگی سے لیں ۔یہ علامتیں دراصل خواتین کے جسم میں ہارمونز کا توازن بگڑنے کی ہیں‘ قبل ازیں یہ مرض زیادہ تر 50سے 60سال کی عمر کے درمیان کی عورتوں میں پایا جاتا تھا لیکن اب کم عمر لڑکیاں بھی اس بیماری میں بہت تیزی سے مبتلا ہو رہی ہیں۔


سینے یا چھاتی کے سرطان ہونے کی یقینی وجوہات کے بارے میں طبی ّ سائنس کچھ زیادہ نہیں جانتی‘ جبکہ بعض جین BRC1 اور BRCA2 کی جسم میں موجودگی کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں خواتین جوانی سے ہی تشخیصی معائنہ شروع کرا دیتی ہیں تاکہ اس بات کا یقین کرلیا جائے کہ کن خواتین میں مذکورہ جین موجود ہیں۔ کسی بھی قسم کے مسئلے کی صورت میں بروقت علاج کردیا جاتا ہے۔

ایسے ہی اگر کسی خاندان میں کسی کو سینے کا سرطان ہوا ہو تو اس خاندان میں اس بیماری ہونے کے خطرات و امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ خواتین جن کی پہلی اولاد زیادہ عمر میں ہو‘ اضافی ہارمون یا کھانے والی مانع حمل ادویات کا استعمال اور 40سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں سینے کے سرطان کے خطرات بڑھ جاتے ہیں‘ البتہ ماں کا اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانا ان خطرات کو کم کرتا ہے۔


تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سن بلوغت میں زیادہ روغنی غذاؤں کا استعمال لڑکیوں میں آگے چل کر چھاتی کے سرطان کے خطرات میں غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیاں چھاتی کے سرطان سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کر سکتی ہیں۔ اس بارے میں امریکا کی مشیگن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق کم سنی میں روغنی غذا کے استعمال سے پرہیز کرنے والی لڑکیوں میں آگے چل کر چھاتی کے سرطان کے خطرات کافی کم ہو سکتے ہیں۔


جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اس مرض کی جلد تشخیص قابل علاج ہے۔ تشخیص کے لئے تین طریقے موجود ہیں۔ اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرنا‘ طبی ّ ماہرین سے معائنہ و تشخیص اور میموگرافی۔
20سال سے بڑی عمر کی خواتین کو ہر ماہ خود تشخیصی معائنہ ضرور کرنا چاہئے اور زیادہ بہتر ہے کہ ڈائری پر اس کا اندراج کریں اور تھوڑی سی تبدیلی کی صورت میں ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

خود تشخیصی معائنہ کے لئے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو دیکھیں۔ سینے کا بھی معائنہ کریں کہ اس پر کہیں کوئی گلٹی‘ پھوڑا یا زخم تو نہیں ہے ۔ بغل‘ گردن اوراس کے ساتھ جگہ میں بھی کوئی گلٹی وغیرہ نہیں ہونی چاہئے۔ امریکن کینسر سوسائٹی کے چارٹ کے مطابق ماہانہ خود تشخیصی معائنہ کے ساتھ ساتھ 25سال کی عمر سے ہر سال میمو گرافی ضرور کرانی چاہئے۔


سینے کے سرطان کے علاج کے لئے سرطان کی سطح جانچنے کے بعد علاج تجویز کئے جاتے ہیں جن میں سرجری‘ کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی شامل ہیں۔ ادویات میں اینٹی ہارمونل گولیوں کا طویل کورس بھی کرایا جا سکتا ہے‘تاہم پاکستان میں اسپتالوں تک آنے والے کیسوں کی اکثریت اتنی بگڑی ہوئی ہوتی ہے کہ علاج معالجے کے ذریعے چھاتی کو بچانا ممکن نہیں رہتا ۔

پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال میں پلاسٹک سرجری کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے جسم کے دوسرے حصے ّسے جلد اور گوشت لے کر نئی چھاتی بنانے کا علاج موجود ہے ۔
کینسر ریسرچ فاونڈیشن آف پاکستان کی بانی اور ورلڈ انسٹیوٹ آف ایکالوجی اینڈ کینسر کی ایشیا ء کی صدر ‘فاطمہ جناح میڈکل کالج فار ویمن لاہور کی سابق پرنسپل اور فاطمہ جناح ایوارڈ2014حاصل کرنے والی ڈاکٹر خالدہ عثمانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین چاہے وہ پڑھی لکھی ہیں یا غیر تعلیم یافتہ انہیں اپنی صحت کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں یہاں تک کہ خواتین اپنی جسامت سے بہت چھوٹے زیرجامے پہنتی ہیں جس سے اُن کی چھاتیاں مسلسل گھٹی رہتی ہیں جس کی وجہ سے زخم بننے کا خطرہ پید اہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ فوم‘ نائلون اور خاص طور پر کالے رنگ کے زیر جامے بھی چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ کالا رنگ سورج سے ایسی خطرناک شعاعیں جذب کرتا ہے جو انسانی جلد اور خاص طور پر چھاتی کی جلد کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔خواتین کو رات کو زیرجامہ اتار کر سونا چاہئے کیوں کہ ایسا نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سفید یا جلد کے رنگ کی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہئے اور اس کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

چست قمیض پہننے سے بھی سینے میں پھوڑے بن جانے کا اندیشہ رہتا ہے لہذا اس سے بھی احتراز ضروری ہے۔خواتین کو چھاتی کے سرطان سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کے بجائے اپنا دودھ پلانا چاہئے۔ اس کے علاوہ بڑھتی عمر‘ماہواری کا دیر سے بند ہونا‘ بے اولادی اور خاندانی چھاتی کے سرطان یا اور کسی قسم کے سرطان چھاتی کے سرطان پیدا کرنے کی خاص وجوہات ہیں۔

جو خواتین اپنی غذا بہتر نہیں رکھتیں وہ دیگر کئی بیماریوں کے علاوہ سرطان کا شکار بھی ہو سکتی ہیں اس لئے متوازن غذا بھی ضروری ہے۔ڈاکٹر خالدہ کے مطابق ذہنی کا شکار خواتین میں چھاتی کا سرطان نسبتاً زیادہ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ اور پاکستان بریسٹ کینسر ٹرسٹ مل کر آگاہی مہم پر کام کررہے ہیں لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔حکومتی سطح پر چھاتی کے سرطان کے خلاف نیشنل پلان آف ایکشن بنائے جانے چاہئے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو یورپ کے ماڈل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسکریننگ پروگرام شروع کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ ابتدائی مراحل پر ہی اس مرض کی تشخیص ہو سکے اور بعد میں زندگی کو لاحق ہونے والے خطرے اور زیادہ مہنگے علاج سے بچا جا سکے۔ اسکریننگ کے لئے موبائل یونٹ بھی ملک کے دور دارز علاقوں میں جا کر سہولتیں پہنچا سکتے ہیں‘جن کے سال بھر کے دوروں کا شیڈول موجود ہو اور اس بیماری کو بروقت تشخیص اورعلاج کر کے زیادہ نقصانات سے بچا جائے۔


ماہرین کے مطابق لوگوں کو سرطان کی روک تھام‘ خطرات کا باعث بننے والے عوامل اور معمول کے طبی معائنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کر نا چاہئے تاکہ سرطان سمیت کسی بھی مرض کاابتدائی مراحل میں پتہ چل جائے اور اس کا علاج ممکن ہو سکے۔ بالخصوص دیہی علاقو ں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے آگاہی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے۔کینسراسپتال اور تحقیقی ادارے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


شرم اور جھجک کے باعث معالجین سے اپنی تکلیف کو پوشیدہ رکھنا خواتین کی زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ چھاتی کے سرطان کی بروقت تشخیص کی جائے تو 90 فیصد خواتین صحت یاب ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے خواتین کو بطور خاص چھاتی میں گلٹی کی صورت میں فوری طور پر اپنا طبی معائنہ کرانا چاہئے تاکہ فوری علاج سے وہ اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کم از کم سال میں ایک مرتبہ اپنا معائنہ ضرور کرائیں۔مائیں اپنی بیٹیوں سے اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں اور باقاعدگی سے چیک اپ کرانے کی عادت ڈالیں۔اس حوالے سے کسی بھی قسم کی سستی یا کوتاہی نہ برتیں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ لاپرواہی یا غیرضروری شرم و حیا سے یہ بیماری خطرناک صورت حال اختیار کر جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :