اسلامی معاشی نظام۔۔۔۔۔ایک خواب ایک حقیقت

بدھ 15 جنوری 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

جان دی‘ دی ہوئی اسی کی ہے
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زندگی کے چالیس سال میں نے اسی امید میں گزار دیئے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب میری آنکھیں بھی ایسی خوش بخت ساعت کو دیکھ سکیں گی کہ جب اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہوگا کہ جب اس خالق و مالک کی رضا ہی اس مملکت خداداد کا اوڑھنا بچھونا ہوگی جس مقصد کیلئے اللہ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو بھیجا‘ جس دین کی سربلندی کیلئے حضرت امام حسین نے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دی وہ نظام کبھی تو کوئی پاکستان میں رائج کرے گا‘ کوئی تو ایسا لمحہ آئے گا کہ اس عظیم نظام کے رنگ پوری دنیا کو نور بخشیں گے‘ کبھی تو چراغاں ہوگا‘ کبھی تو اس نظام کی خوشبو پاکستان سے ہوتی ہوئی پوری دنیا کو مہکائے گی‘ کبھی تو میری بے نور آنکھوں میں نور کی کرنیں چمکیں گی‘ کبھی تو اس ملک کے محروم اور مظلوم عوام کو ان کا حق ملے گا‘ کبھی تو اس معاشی استحصال سے ان کی جان بخشی ہوگی‘ کبھی تو ہم سب ملکر پاکستان کوغربت‘ جہالت اور ناانصافی کے اندھیروں سے نکالیں گے‘ اس سوچ اور خواہش کو لئے وطن سے دور اس پرندے کی طرح ہجرت کرنا پڑی کہ جس کا رزق کسی دیار سے ختم ہوجائے اور اسے زندہ رہنے کیلئے میلوں کا سفر بغیر کسی زادراہ کے طے کرنا پڑے‘ کبھی کبھی جس کی حب میں ساری زندگی گزری ہو اسی سے دور ہونا انسان کا مقدر ٹھہرتا ہے سو ہم بھی ان میں سے ایک ہیں مگر دل میں ایک ارادہ تو ہمیشہ سے تھا اور ہے کہ انشاء اللہ نہ صرف پاکستان کیلئے بلکہ امت مسلمہ کیلئے کچھ بھی کر سکا تو ضرور کروں گا۔

(جاری ہے)

کبھی کبھی اس دیار غیر میں رہتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے وطن میں رہتے ہیں جن کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کے اپنے وطن میں ہی مقام حاصل ہوجاتا ہے‘ ان کو اپنے وطن میں رہنے والے والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور ان کے روز و شب اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی میں گزرتے ہیں۔
 میں یہاں یہ بات ضرور کہوں کہ انسان اگر قناعت بھی کرے تو بھی بدقسمتی سے وطن عزیز میں مناسب طریقہ پر زندگی بسر کرنے سے محروم رہتا ہے۔

جھوٹ‘ رشوت‘ سفارش‘ منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ بے ایمانی‘ دھوکہ دہی ہمارے روز و شب کے معمول ہیں لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم سب بھی کسی نہ کسی طرح سے اس کا حصہ ضرور رہے ہیں یا ہیں‘ غیر ارادی طور پر جیسے نادانستہ طور پر کہا جائے تو ٹھیک ہوگا۔ اگر کوئی ایسا کہے کہ میں اس سے محفوظ ہوں تو یہ کوئی معجزہ ہی ہوگا۔ اس ساری گردان کی اصل وجہ صرف ہم ہیں اور کوئی نہیں‘ کیونکہ ہم نے ان ساری برائیوں کی جڑ کو اپنے رہن سہن کا لازمی جزو بنا لیا ہے‘ ہم اس نظام کے یا تو آلہ کار ہیں یا پھر معاون اور یا اس کی ترویج میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 
ہم جس بھی طرح سے اس نظام میں ہیں یہ خدا کے نزدیک ایک برا عمل ہے کیونکہ یہ نظام سود کی لعنت سے سرشار ہے‘ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے اس وطن کو حاصل کیا گیا تھا‘ اس کے دین کی سربلندی کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی‘ مجھے آج بھی اپنی ماں جی کے آنسو یاد ہیں جب وہ یہ کہتے ہوئے رو پڑتی تھی کہ ”بیٹا میرے سارے ماموں اس وطن پر قربان ہوگئے مگر اللہ کا نظام پھر بھی نافذ نہ ہوا“ میں خاموش ایک گہری سوچ میں ڈوبا اس ہولناک منظر کا تصور کرکے کانپ اٹھا کہ واقعی جس کا اپنا اس دنیا سے ناحق چلا جائے کہ اس کا جرم صرف یہ ہو کہ وہ مسلمان ہے اس کا دکھ صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس پر بیتی ہو۔

ہماری نوجوان نسل تو اس بات کی مصداق ہے کہ ہمیں کیا‘ جو گیا سو گیا‘ ہمیں تو آزاد وطن ملا ہے جس میں سودی نظام ہو یا اسلامی‘ کھاؤ پیو اور موج کرو‘ مگر ذرا سوچیئے جس رب العزت نے اتنا خوبصورت وطن دیا اس وعدہ پر کہ اس کی زمین پر اسی کا نظام ہوگا ہم اس سے وعدہ خلافی کرکے کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 
ہمارے حکمرانوں کو اب ایک قدم آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا کہ بہت ہو چکا اب اس لعنت سے جان چھڑانی چاہیے‘ آئی ایم ایف کا کشکول توڑ کر اللہ سے مانگنا ہوگا‘ اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں سودی نظام کو ختم کرکے اسلامی معاشی نظام کو اپنانا ہوگا‘ پاکستان اس عیسائی ملک سے تو ہزاروں گنا آسان حالت میں ہے کہ جس کا دستور اور آبادی دونوں اسلام پر مبنی نہیں مگر مغرب میں ہوتے ہوئے لگزم برگ نے اپنے پورے ملکی نظام کو سود کی لعنت سے پاک کر دیا ہے جس نظام کی جڑوں میں سود سرایت کر چکا تھا اس نے مسلمان ملک نہ ہوتے ہوئے بھی اسلامی معاشی نظام کو ملک میں نافذ کیا ہوا ہے۔

برونائی دارالسلام جہاں پوری دنیا نے اس بات پر اس ملک سے بائیکاٹ کا اعلان کیا کہ وہ اسلامی نظام حیات نافذ کرنا چاہتے تھے‘ ملائشیا اور قطر نے اپنی ریسرچ سے بہترین متبادل اسلامی نظام پیش کیا کہ جسے انگلستان‘ جرمنی‘ جاپان اور فرانس جیسے ممالک نے بھی نافذ العمل قرار دیا ہے۔صرف یہی نہیں انگلستان نے تو اسلامی بانڈز کی مد میں دو بلین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی اور انگلستان کو اسلامی معاشی نظام کا مرکز قرار دیا۔

اب خود ہی جائزہ لیجئے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں کا دستور بھی اسلامی ہے وہاں کیوں اسلامی معاشی نظام قائم نہیں ہو سکتا؟ کیوں ہم ظلم و جبر کے نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تیار نہیں‘ اگر ملائشیا اور لگزم برگ اپنے ملک میں اسلامی نظام کو مکمل طور پر نافذ کرکے ترقی اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کہ جہاں کے علماء اور قانون دان دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام نظام معیشت کو پروان چڑھانے کا موجب ہیں جن میں ڈاکٹر اقبال اصاریہ‘ مولانا تقی‘عثمانی، ڈاکٹر ہمایوں ڈار اور پروفیسر خورشید احمد کے نام سرفہرست ہیں۔

 
ہم حرام کمائی سے جو سود کا شاخسانہ ہواپنی زندگیوں میں رضائے الٰہی کا حصول کیسے حا صل کرسکتے ہیں‘ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے حرام رقم جیب میں ڈال کر کوئی حلال گوشت کی دکان ڈھونڈ رہا ہو۔ براہ کرم ہم سب مل کر اپنے حکمرانوں کو اس پر مجبور کریں کہ سودی نظام کی لعنت کو اس ملک سے ختم کریں اور جب ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوجائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ایک عظیم مملکت بننے سے نہیں روک سکتی۔ ان شاء اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :