پولیو اور پاکستان

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

پولیو کی تاریخ اُ تنی ہی پرانی ہے کہ جتنا پرانا انسانی معاشرہ ہے۔مگر1916ء میں اس مرض کا شدید حملہ امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہوا جس کے بعد اس مرض نے عالمی وباء کی شکل اختیار کر لی جبکہ ٹھیک دو سال بعد ہی ایک اور عالمی وباء پھیلی جیسے سپینش فلُو کا نام دیا گیا جس کی وجہ سے پولیو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا سکی۔ پولیو وباء کے آغاز سے ہی امریکہ میں 9000 کیسز سامنے آئے اور 2343 اموات ہوئیں جبکہ عالمی سطح پر 27000 کیسز سامنے آئے اور تقریباً 6000 بچے لقمہ اجل بنے۔

یہ صدی کی سب سے لمبی وباء تھی ۔1952ء کے ریکارڈ کے مطابق 57628 کیسز صرف امریکہ میں ہی رپورٹ ہوئے۔
اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو پولیوکا مرض 20ویں صدی میں نہیں بلکہ اس سے بھی کئی صدیاں پہلے موجود تھا۔

(جاری ہے)

اس مرض کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے تحقیق کے دوران (1365-1403 ق ۔م) کے دور سے تعلق رکھنے والے چند پتھر ملے جن پر کچھ تصاویر کندہ تھیں جن میں قُس دور کے انسانوں کو بھی پولیو کا شکار دیکھایا گیا تھا۔

اس سے ثابت ہوا یہ مرض ہمیشہ سے ہی ہمارے ساتھ ہے۔
 اس وباء میں بھی کورونا کی طرح آغاز سے ہی سانس لینے میں شدید دشواری ہوتی تھی جس کی وجہ سے برطانوی سا ئنسدان فلپ اور لوئس نے 1928ء میں سانس کو بحال کرنے والی مشین متعارف کروائی جس کو آئرن لنگز کا نام دیا گیا جس نے بعد میں جدید وینٹی لیٹر کی شکل اختیارکر لی۔ اس بیماری کی پہلی ویکسین 1952ء میں ڈاکٹر جو نس سالک نے ایجاد کی جس نے پولیو کو کم کرنے میں بڑی مدد دی۔

اس کے بعد البرٹ سبن کی اورل ویکسین نے اُس کی جگہ لے لی جو آج بھی کارگر ہے۔ 1962ء میں برطانیہ میں بھی اس کو اپنایا گیا۔ جس کے بعد برطانیہ میں 1982ء کے بعد کوئی بھی پولیو کا مریض سامنے نہیں آیا یہی نہیں 1988ء کے بعد برطانیہ، امریکہ آسٹریلیا، اور باقی یورپ کے علاوہ دنیا کے 125 ممالک سے پولیو کا مرض ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیاہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائز شن نے 1994ء میں امریکی ریجن، 1997ء میں چین ریجن اور 2002ء میں برطانیہ سمیت یورپ بھر کے تمام ممالک کو پولیو فری زون قرار دے دیا۔


2013ء تک دنیا بھر کے جن چار ممالک میں پولیو کی وباء موجود تھی ان میں انڈیا، افغانستان، نا ئجیریا اور پاکستان شامل تھا مگر 2015 کے بعد انڈیا اور نائجیریا کو بھی پولیو فری ملک قرار دے دیا گیا بس اب اگر پوری دنیا میں پولیو کہیں موجود ہے تو وہ افغانستان اور پاکستان ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ کیونکہ پولیو کا جب تک ایک بھی مریض پا کستان میں موجود ہے پاکستان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل کبھی تا بناک نہیں ہو سکتا۔


اس مہلک بیماری کے پاکستان سے ختم نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں عوام میں تعلیم ، شعور وآگہی کی کمی ایک اہم  مسلۂ ہے۔ جس میں  حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ ویکسین پلانے والاعملہ ویکسین کی حفاظت اور پلانے کی درست مقدار سے مکمل طور پر آگاہی و تربیت نہیں رکھتا ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق  پاکستان میں بچوں کو پولیو ویکسین کی ناصرف زیادہ مقدار پلائی جا تی ہے بلکہ ویکسین کو بھی درست درجہ حرارت پر محفوظ نہیں کیا جاتا۔

اس کے علاوہ ویکسین کو ٹرانسپورٹ کرنے کا کوئی موثر انتظام بھی  نہیں کیا جاتا جس کے باعث  2019 میں کئی سو بچے ہسپتال میں پولیو ویکسین کے بعد معدے کی درد، الٹیاں اور بے ہوشی کی علامات کے ساتھ داخل ہوئے جس کی سب سے بڑی وجہ ویکسین کی بجائے ویکسین پلانے والے عملے کی بےاحتیاطی تھی اور اس پر ظلم یہ کہ چند افراد کی طرف سے پولیو ویکسین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلنی شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے پولیو کے قطرے پلانے والے ورکرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس صورتحال سے نپٹنے کے لئےحکومت نے خیبر پختونخواہ میں بچوں کے والدین کے احتجاج کے بعد ویکسین کے بارے میں غلط افوا ہیں پھیلانے والے گینگ کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اس جہالت کو دور کرنے کے لئے نہ تو موثر اقدامات کیے گئے اور نہ ہی ٹھوس منصوبہ بندی ہوئی ۔ گذ شتہ برس پاکستان میں پولیو کے53 نئے کیسز سامنے آئے اور اگر ہم گزشتہ سا ل سے لے کر رواں برس تک کی بات کریں تو اب تک جو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اُن کی تعداد 147ہے۔

پاکستان میں پولیو کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد آنے والے وقت کے لیئے یقینناًخطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر صورت حال اسی طرح برقراررہی تو خدا نخوستہ پاکستان کو آنے والی دھائی میں  ہنگامی صورتحال سے گزرنا پڑھ سکتا ہے۔
 کورونا وائرس کی وبا ء کے باعث کئی ماہ کے لاک ڈاؤن کے دوران پولیو مہم کو بری طرح سے نقصان پہنچا۔ مگر حکومت پاکستان نے حال ہی میں اس مہم کا دوبارہ آغاز کیا ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے مگر حکومت کو اس مہم میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کو دور کر کے اس مرض کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ قابل سٹاف بھی بھرتی کرنا چاہیے۔ ہیلتھ ورکرز  جو اس سارے نظام میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور فرنٹ لائن فورس کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ ان کے لیے تربیت کا سلسلہ سال میں کم از کم دو مرتبہ ہونا چاہیے اور اس کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا چا ہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیلتھ ورکرز  کی خاص مانیٹرنگ کی طرف توجہ دی جانی چاہیئے۔

تاکہ ان مسائل کا اژلہ ہو سکے ۔ اس کے علاوہ  حکومت پاکستان کو پبلک ہیلتھ کے بارے میں معلومات کو عوام میں عام کرنا چاہیے تاکہ عوام کے ذہن میں موجود پولیو ویکسین کے سا ئیڈ افیکٹس کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور خدشات پر قابو پایا جاسکے۔
 اس میں اہم ترین اقدام انفرادی میڈیکل ریکارڈ بک کا اجراء ہے جس کی کمی پاکستان میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔

اس بک کو ہر فرد کیلیے ہونی چاہیے مگر خاص طور پر پانچ سال تک کے بچوں کیلیے اس کی موجودگی لازمی ہونی چاہئیے تاکہ بچے اگر ملک کے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئیے جائیں وہ چیک اپ سے پہلے حفاظتی ٹیکے یا ویکسین کا کورس مکمل ہونے کی تصدیق اور میڈ یکل ہسٹری کا پتہ چلا سکیں اور تشخیص اس بک میں درج کریں تاکہ بچوں کی بہتر نگہداشت کی جا سکے۔

انفرادی میڈیکل ریکارڈ کے نظام کو رائج کرنے کے لئے  اگر اس طرح کی بک سے ہی آغاز کر لیا جائے تو ملک میں بچوں کے میڈیکل اور ویکسین کا مکمل ریکارڈ  مرتب کرنا بہت آسان ہو سکتا ہے ۔ بعد از مستقبل میں ایک قدم آگے بڑھ کر اس جدید دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے میڈیکل ریکارڈ ایپ متعارف کروائی جانی چاہئیے جس میں ملک کے ہر بچے کا میڈیکل ریکارڈ ہونا چاہئیے جو کہ نادرا کی مد د سے باآسانی بنایا جا سکتا ہے اس ایپ  پر  ہر بچوں کے ڈاکٹر کو دسترس  دی جائے ۔

تاکہ جب بھی اُس کے کلینک یا ہسپتال میں کوئی بھی بچہ مریض ہو کر آئے اُس ڈاکٹر پر لازم ہو کہ وہ اس موبائل ایپ کے ذریعے بچے کی ویکسین کا ریکارڈ چیک کر سکے اور اس بچے کے والدین اور ادارہ صحت کو درست معلومات فراہم کر سکے۔
 یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حکومت کے علاوہ ہماری بھی  ذمہ داری ہے کہ جو لوگ صاحب علم و دانش ہیں وہ اس کی اہمیت کو عام و سادہ شہریوں تک پہنچائیں خاص کر اُن لوگوں تک جو افراد دیہات میں رہتے ہیں تاکہ اس موذی مرض سے پاکستان ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :