حکومت کا اصل امتحان‎

منگل 5 جنوری 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

قومیں ہر دور میں مشکلات، مسائل اور چیلنجز سے نبرد آزما ہوتی رہی ہیں مگر تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ حالات کے گرداب سے وہی قومیں سرخرو ہو کر نکلتی ہیں جو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں، جو من حیث القوم فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر با ہمی اتحاد اور یگا نگت سے مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتی ہیں۔ جن قوموں کے حکمرانوں میں فطری طور پر احساس کی رمق باقی ہو اور جن کی لیڈرشپ میں اہلیت و نیت دونوں موجود ہوں جو عہدوں و ذمہ داریوں کے فرق کو جا نتے اور سمجھتے ہوں، جو تجزیوں کو تجربوں کی کسوٹی پر پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بس انہی قوموں کا مستقبل تابناک ہو تا ہے کہ جو ان سنہری اصولوں پر کار بند ہوں۔

بہر کیف اگر لیڈرشپ کی اہلیت اور نیت یکجا ہو جائیں تو کوئی چیلنج بھی چیلنج نہیں رہتا، بلکہ اس کے دیو ہیکل جسم میں جان تک باقی نہیں رہتی یہاں تک کہ وہ اپنی ہئیت اور شکل کھو بیٹھتا ہے اور ریت کے ذروں کی طرح ہوا میں بکھر جاتا ہے یا پھر پانی کی طرح بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے،بالکل اسی طرح کہ جیسے سورج کی کرنوں کی ہلکی سی جنبش ہی اندھیروں کا گریباں چاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اس کی زندہ مثال جرمنی کی صورت میں موجود ہے جو دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا مگر اس قوم کے حکمرانوں میں نیت اور اہلیت موجود تھی جس کو بروِئے کار لا کر انہوں نے جرمنی کو دوبارہ دنیا کے نقشہ پر ایک طاقتور ترین ملک بنا کر کھڑا کر دیا۔
اس وقت جس چیلنج نے ہمارے دروازے پر دستک دی ہے اس کی کھٹکھٹاہٹ سے ہمارے کانوں کے پردے تک پھٹ جانے کا اندیشہ ہے۔

جو بیروزگاری، مہنگائی، بھوک اور افلاس کی صورت میں ہمارے حلق سے آخری نوالا بھی چھین سکتا ہے۔ مجھے تو خدشہ یہ ہے کہ اس سونا می سے شاید ہی کوئی گھر یا کاروبار محفوظ رہ سکے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کاروبارِ زندگی کا ایک دوسرے پرانحصار ہے۔ اس کی بازگشت تو مجھے بہت پہلے سے سنائی دے رہی ہے کہ جو کورونا وائرس جیسی وباء کے معاشی اور معاشرتی اثرات کی صورت میں ہم پر حملہ آور ہونے والی ہے۔


ایک نظر اپنے گردو نواح پر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہر شخص بے خبر ی کی زندگی گزار رہا ہے، ان مشکل حالات کی تیاری تو ایک طرف یہاں کسی کے سر پر جْوں تک نہیں رینگ رہی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم نے ایک بے حس معاشرے میں جنم لیا ہے جہاں ہر شخص خود کو مسیحا تو سمجھتا ہے مگر حقیقت میں مسیحائی کی ’م‘ سے بھی واقف نہیں۔ ایک آٹے کا تھیلا اور گھی کا ڈبہ دے کر اس قدر تشہیر کہ خدا کی پناہ،درحقیقت ہم اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں یہ خود نمائی کی گھٹیا ترین مثال ہے۔

ان کے دلوں کو ٹٹول کر دیکھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ اندر سے زنگ آلود ہ لوگ ہیں۔ دین تو چھپ کر دینے کی ترغیب دیتا ہے یہاں تک کہ دوسرے ہا تھ کو بھی پتہ نہ چلے۔مگر یہاں تو گنگا ہی اْلٹی بہتی ہے۔ کسی کو کیا کہ یہاں کوئی مرے یا جیے یا کوئی صرف دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی عفت و عصمت کا سودا کر گزرے، ان کا دل کسی بات پر شکستہ نہیں ہوتا۔ میرا تو ماننا ہے کہ کوئی شخص بھی بے حیا ء اپنی ماں کی گود سے پیدا نہیں ہوتا یہی معاشرہ ہے جو اس کو بھوک اور افلاس کی چکی میں پیس کر دنیا کے سامنے ننگا کر کے کھڑا کر دیتا ہے۔


ڈر ئیے اْس وقت سے کہ جب حالات ہمارے لیے بھی بے قابو ہو جائیں کہ جیسے اٹلی کا وزیر اعظم رو رو کر اپنی بے بسی کی دو ہائی دیتا رہا، امریکہ کا صدر مساجد، چرچ اور دیگر عبادات کو کھولنے کا حکم دے کر اپنی بے بسی کی گواہی دیتے ہوئے کہنے لگا کہ اب امریکہ کو صرف دعاؤں کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں تو لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، بچے دودھ کی ایک بوند کے منتظر ہیں، تن پر کپڑے تک نہیں اور دوسری طرف غریب غریب تر اور امیر امیر تر ین ہوتا جا رہا ہے۔

انصاف حاصل کرنے کے لیے نسلوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ہر شے ملاوٹی، ہر شے جعلی۔ اب تو ہر شے کا چہرہ مسخ اور عجیب نظر آرہا ہے۔
وہ دن دور نہیں ہے کہ جب آپ اپنے ہمسائے کا خیال کرنے پر صرف اس لیے مجبور ہو جائیں گے کہ وہ بھوک سے تنگ آکر کہیں آپ پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ اس کا آغاز سٹریٹ کرائمز کی صورت میں تو بہت پہلے سے ہو چکا ہے مگر اب وسائل کو غصب کرنے والوں کے گھروں میں داخل ہونے والا ہے۔


اس وقت حکومت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ حالات کا رخ مثبت سمت کی طرف کیسے موڑتی ہے۔ کس طرح قوم کی راہنمائی کرتی ہے۔ کس طرح آنے والے طوفان کا مقابلہ حکمت اور تدبر سے کرتی ہے کیو نکہ اس وقت بنیادی ضرورت نیت اور اہلیت کی ہے اسی چابی سے بند دروازے کھلیں گے۔ حکومت کی اچھی نیت کے تو کسی حد تک ہم قائل ہو چکے ہیں مگر اب حکومت کو اپنی اہلیت ثابت کرنا ہو گی۔

اگر حکومت نے اس وقت بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھیں تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
ان مسائل کو عارضی طور پر حل کرنے کے لیے تو بہت جتن کیے گئے مگر منزل ابھی بہت دور ہے اس کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ابھی اْس درجے کا کام نہیں ہو سکا جس قدر اس کی ضرورت تھی کیونکہ یہ ایک جنگ ہے غربت اور محرومی کے خلاف، اشرافیہ اور مافیا کے خلاف، یہ ایک جدوجہد ہے ظلم اور جبر کے خلاف، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف جو اس ملک کے وسائل پر پوری طرح قابض ہیں۔


جب تک حکومت وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا حل تلاش نہیں کرے گی ملک کی لوٹی ہوئی دولت خزانے میں واپس نہیں لاسکتی، وہ عوام کو ان گردشِ ماہ و سال سے کبھی آزاد نہیں کروا سکتی۔
میں پوچھتا ہوں کون ہے جو آپ کو ان طاقتوروں کے سامنے جھکنے پر مجبور کر رہا ہے؟ کون ہے جو آپ کو ان گندی مچھلیوں کا شکار نہیں کرنے دیتا، کون ہے جو اس بد بو دار تماشے کو ڈائریکٹ کر رہا ہے؟ ہم بھی تو جانیں کہ مصلحت کے نام پر عوام کا شکار کون کر رہا ہے ،کون ہے جو ان درندوں پر ہاتھ ڈالنے سے آپ کو ہر دفعہ روک دیتا ہے۔ اس گند سے ملک کو صاف کیجئے خاں صاحب ورنہ عوام کا اعتماد خس و خا شا ک کی طرح بہہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :