مسئلہ فلسطین کا حل۔۔۔۔مذاکرات‎

پیر 31 مئی 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں جو دل خراش مناظر دیکھنے کو ملے وہ انتہائی درد ناک ہیں۔ عورتوں، بچوں، بزرگوں، میڈیا ہاؤسز، ایمبولینسوں اور ہسپتالوں پہ بمباری کی گئی جو دنیا کی تاریخ کا نا صرف سیاہ ترین باب ہے بلکہ انتہائی شرمناک جنگی جرم بھی ہے۔ رنج کی بات تو یہ ہے کہ جنگ بندی کا اعلان تب ہوا جب دونوں طرف لاشوں کے ڈھیر دیکھنے کو ملے،اسرائیلی حکمران کئی دہائیوں سے ان بے رحمانہ کارروائیوں کا موجب ہیں اس ایک عشرہ پر مبنی جنگ کے دوران دنیا بھر کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی پر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسرائیل نے فلسطین کے سوا پوری دنیا کو فتح کر رکھا ہے، کیونکہ اس کل وقتی تشدد میں اگر کو ئی مزاحمت ہوئی تو صرف فلسطین کے گلی کوچوں سے، باقی ساری دنیا حسب ِ معمول خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔

(جاری ہے)

مصر، پاکستان، ترکی، چین، روس اور ایران نے اپنے اپنے سفارتی محاذ وں پر کسی حد تک عارضی جنگ بندی کے لئے اپنا اپنا رول ادا تو کیا، مگر اس کا کوئی خاطر خواہ و مستقل حل نظر نہیں آتا۔ درحقیقت عالمی طاقتیں حسب ِ روایت اس عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت کسی طرف سے بھی اس مسئلے کے مستقل حل کی بات نہیں ہوئی اگر ہوئی بھی ہے تو صرف بیانیے کی حد تک دوسری طرف او آئی سی بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔


دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بھی کچھ کم نہیں اس اہم ترین مسئلے پر حسب ِ معمول جنگ بندی کے لئے ان کی طرف سے بھی کوئی سنجیدہ کردار ادا نہیں کیا جا سکا اس کے برعکس معاملات کو مزید الجھایا گیا، جوبائیڈن حکومت نے بھی گزشتہ امریکی حکومتوں کی روش اختیار کی، جس کی وجہ سے جنگ بندی میں کئی روز کی تاخیر ہوئی اور ہمیشہ کی طرح درجنوں بے گناہ شہری اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

دوسری جانب میڈیا بھی مسئلے کے مستقل حل کو قطعی طور پر دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہا۔
اقوام عالم کو سسک سسک کے مرتی ہوئی انسانیت کا کوئی احساس نہیں،حالانکہ اس کے بغیر نہ تو امن حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی دُکھی انسانیت کو قرار آسکتا ہے۔ اس بات سے پوری دنیا آگاہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ تنازعہ کوئی نیا نہیں،بلکہ اس کی جڑیں کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہیں،فلسطین اور اسرائیل تقر یباً ہر سال ایک دوسرے کے مدمقابل آتے ہیں،دونوں طرف جنگ برپا ہو تی ہے، کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، جس کے بعد امریکی مداخلت پر جنگ بندی اور پھر زندگی اْسی طرح رواں دواں ہو جاتی ہے، لیکن اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو اْن کو کہ جن کے پیارے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کے گھر اُجڑ جاتے ہیں،جن کے کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں، جن کی عصمت و حرمت تار تار ہو جاتی ہے، جن کے خاندان لٹ جاتے ہیں، جن کے گلیاں کوچے و چوبارے ویران ہو جاتے ہیں  اور وہ کھلے آسمان تلے بے بسی کی تصویر بنے خدا کی مدد کے منتظر رہتے ہیں ہر طرف آدمیت محو رقصاں ہے اور انسانیت ناپید ہو چکی ہے۔


اس مرتبہ پہلی بار برطانوی یہودی کمیونٹی اسرائیل کے معاملے میں دو حصوں میں منقسم نظر آئی کچھ کا خیال تھا کہ حماس اسرائیل کو اس طرح کی کارروائی پر مجبور کرتی ہے تو کچھ کا خیال تھا کہ اسرائیل کا وجود سرے سے ہی غلط ہے، کیونکہ یہ فلسطین کی سر زمین ہے اگر کسی بھی یہودی خاندان نے فلسطین میں رہنا ہے تو وہ فلسطینی پاسپورٹ پر رہیں،جس کے برعکس اُمت مسلمہ اور فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے ماسوئے چند مسلم اکثریتی ممالک کے جنہوں نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا، مگر دیگر ممالک مکمل فلسطین کی آزادی تک کسی اور تجویز کو ہر گز ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کون سا راستہ اختیار کیا جائے کس طرح اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے تو اس میں فریقین کو مل کر اس مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کرنا ہو گا جنگ نہ پہلے اس کا حل تھا اور نہ آنے والے وقت میں جنگ سے اس مسلے کا حل ممکن ہے، کیونکہ اس جدید دور میں جنگوں کی ترتیب و ترکیب تبدیل ہو چکی ہے، اِس لئے مسلے کا پرامن حل ہی خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :