زندہ قوم کی عید تیاریاں

جمعہ 22 مئی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

دنیا میں بہت سی اقوام آباد ہیں۔ہر قوم کا رہن سہن دوسرے سے بلکل مختلف ہے۔ہر قوم اپنے اصول و ضوابط سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ پاکستانی دنیا بھر میں اپنی بہادری اور شجاعت کی بدولت مشہور ہیں۔اِس مٹی نے کئی ہیرے پیدا کئے جنھوں نے ہر محاذ پر وطن کا پرچم بلند رکھا۔آج دنیا کو کرونا (جس کو کووڈ 19 بھی کہتے ہیں) جیسی وباء کا سامنا ہے باقی دنیا کی طرح پاکستان بھی متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔

لیکن میرا سلام ہے اِس قوم کے باسیوں کو جس نے اِس وائرس کو سنجیدہ بھی لیا اور چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد نے اِس وائرس کی حساسیت کو ضرور سمجھا اور لاک ڈاؤن پر کافی حد تک عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا۔ہم نے یہ محاورہ آجکل بہت سے لوگوں سے سُن بھی رکھا ہوگا کہ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔

(جاری ہے)

بلکل اسی طرح پاکستان کی عوام اِس سے بڑی ہمت اور بہادری سے لڑ رہی ہے۔

زندہ قومیں اپنی پہچان ضرور کرواتی ہیں اور اپنی اعلیٰ پہچان ہی کی بدولت دنیا کی نظروں میں قدروقیمت بھی پاتی ہیں۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔یہاں بھی عیدین کا تہوار بڑی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔جس میں تمام اسلامی رسومات کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ میں ذکر کرتا ہوں عیدالفطر کا جس میں ابھی چند روز ہی باقی ہیں رمضان کا مہینہ اپنی خوشبوئیں اور رحمتیں بکھیرتا رخصت ہونے کو ہی ہے۔

اور یہ سلسلہ چودہ سو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ خاص رحمت اور برکت والا بنا کر بھیجا ہے اِس ماہِ مقدس کے بعد ہم عیدالفطر کے چاند کا استقبال کرتے ہیں جس کا ہر سال ہی بڑی دھوم دھام سے استقبال کیا جاتا رہا ہے۔چاند رات کو بازاروں اور سیروتفریح کے مقامات پر پیر دھرنے کی جگہ کم پڑ جاتی تھی۔لوگ عید کی تیاریوں میں کئی روز قبل ہی زوروشور سے مگن ہو جاتے۔

کرونا وائرس کی بدولت دنیا بھر کی طرح اِس سال پاکستان میں بھی بازاروں اور شہروں کی رونقیں ضرور ماند پڑیں۔کیونکہ مقامی حکومتوں نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔بہت سے گنجان آباد ممالک میں ابھی بھی لاک ڈاؤن موجود ہے لیکن حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کو مکمل طور پر کھولنے کا اعلان کیا، تقریباً دو ماہ بعد ٹرینوں کی روانگی بحال ہو چکی ہے۔

بس اڈوں پر پردیسیوں کا آبادی وطن واپسی کے لئے رش لگا ہے۔ لوگ عید کی تیاریوں میں مگن ہیں بازار کھچا کھچ لوگوں کے ہجوم سے بھرے نظر آ رہے ہیں۔لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ عید کی شاپنگ کرنے میں مصروف ہیں۔مجھے بھی عید کی شاپنگ کے حوالے سے کچھ روز قبل اپنے دوستوں کے ساتھ آبائی شہر جھنگ کے بازاروں کو دیکھنے اور شاپنگ کرنے کا موقع ملا۔ یہاں بھی دیکھا کہ باقی پاکستان کی طرح خریداروں کا رش لگا ہے۔

لوگ اپنے من پسند کی خریداری میں مصروف ہیں۔یہ وہ وقت ہے جب پاکستان میں کرونا کی وباء کا زور اپنے جوبن پر ہے کیسز کی تعداد پنتالیس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ وائرس ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکا کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں۔
ہم نے کرونا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا بھی ہے۔یہاں میرا ہرگز مطلب نہیں کہ ہمیں آجکل کے حالات کے مدِ نظر یہ سب کرنا چاہئے کہ ہم پہلے کی طرح ہی بازاروں اور تفریحی مقامات کا رُخ کریں۔

ہمیں ایسی باتیں کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جہاں ہمارا میڈیا اور ہم منفی تاثر کو عام کرتے ہیں وہی ہمیں اچھی باتوں پر بھی ضرور داد دینی چاہیے اور ایسے حقائق کو چھپانے سے بھی گریز کرنا چاہئے کہ جس میں مثبت پہلو بھی اُجاگر ہو۔میں نے دیکھا کہ بہت سے افراد حکومتی ہدایات کے مطابق عمل پیرا ہیں اور خریداری کے دوران بہت سے افرادایس او پیز کا بھی خوب خیال رکھ رہے ہیں۔

 ماسک اور جراثیم کش سپریز کا بھی استعمال عام ہے۔جہاں تک ممکن ہو سکے لوگ سماجی فاصلے کو بھی مدِ نظر ضرور رکھ رہے ہیں۔آج بھی ہزاروں پاکستانیوں نے زبردست احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تمام ایس او پیز پر عمل کیا اور پاکستان میں ٹرین آپریشن شروع ہوگیا ریلوے نے بھی زبردست تیاریاں کی تھیں بڑے شہر خاص طور پر کراچی لاہور پشاور ریلوے اسٹیشن مہذب ملکوں کے سٹیشن دکھائی دے رہے تھے جہاں لوگوں نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔

لیکن بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں غفلت کا عملی مظاہرہ ابھی بھی کیا جا رہا ہے لیکن داد تو اِس بات کی دینا ہی پڑے گی کہ ہم خطرات کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی عید کی خوشیوں بھرے تہوار کو پھیکا نہیں پڑنے دینگے۔کیونکہ یہی وہ وقت ہے قوم بننے کا، اور اقوامِ عالم کو یہ باور کروانے کا کہ ہمارا شمار آج بھی زندہ قومیں میں ہی ہوتا ہے۔

جو ہر آفت کا بھی مقابلہ کرتی ہیں اور اپنے تہواروں اور پیارے وطن کی رونقوں کو بھی مانند نہیں پڑنے دیتیں۔اور ہمیں فخر ہے اِس بات پر کہ ہم پائندہ قوم ہیں۔ایک محبِ وطن شہری ہونے کے ناطے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم عید کے اِن خوشیوں بھرے تہوار کو کسی صورت بھی پھیکا نہ پڑنے دیں۔ کرونا کے پیشِ نظر حفاظتی انتظامات کو ضرور مدِ نظر رکھیں۔اور اِس موقع پر غریبوں اور ناداروں کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے کیونکہ پاکستان میں اِس وقت غریب اور سفید پوش طبقہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے اور کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

عید کے اِس خاص موقعے پر خیرات اور زکواة کے ذریعے دکھی انسانیت کی مدد کریں۔اور سرحد پر کھڑے اُن دلیر جوانوں، ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز جو اِن حالات میں بھی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں اور باقی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے معماروں کے جزبے اور ہمت کو بھی میرا سلام اِس اُمید کے ساتھ کہ ہم ڈٹ کر ایک قوم بن کر اِس آفت کو بھی ہمیشہ کے لئے دفن کر دینگے۔انشاء اللہ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :