"سنتھیا ڈان کی ڈرامائی کہانی "

اتوار 7 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان کے سیاسی اُفق پر اِس وقت سنتھیا ڈان رچی چھائی ہیں ۔یہ سنتھیا ڈان کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔سنتھیا ڈان ایک امریکن خاتون ہیں جو سالوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور پھر یہیں کی ہو کر ہی رہ گئیں۔ یہ کبھی خود کو رائٹر کہتی ہیں تو کبھی بلاگر تو کبھی ہومن رائٹس ایکٹوسٹ ۔
مجھے بھی سنتھیا ڈان کو ملنے کا دو سے تین بار موقع ملا۔

سال پہلے کی بات ہے جب والنٹیر فورس پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہماری پہلی ملاقات سنتھیا سے ہوئی ۔یہ ملاقات کافی حوالوں سے کامیاب رہی اور اِس کے بعد سنتھیا ڈان والنٹیر فورس پاکستان کے کئی ایونٹس میں بھی شرکت کر چکی ہیں ۔آزاد کشمیر کے پریزیڈنٹ ہاؤس میں جب مجھے پیس ایوارڈ دیا گیا تو سنتھیا ڈان اُس وقت بھی سٹیج پر جلوہ گر تھیں ۔

(جاری ہے)

اِس کی باتوں اور لہجے سے ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ یہ خاتون نہ صرف پاکستان سے محبت کرتی ہیں بلکہ پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی حالات پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں اور مسائل کے حل کے لئے بھی پراُمید ہیں ۔

آزاد کشمیر سے واپسی پر ایک دوست کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا جو سنتھیا کے ساتھ کئی ایونٹس میں شرکت کر چکے ہیں اور اِن کو جنوبی پنجاب میں سنتھیا ڈان کی مہمان نوازی کا بھی شرف نصیب ہوا۔مجھے بتایا گیا کہ یہ خاتون طبیعت کی نہ صرف سخت بلکہ ضدی بھی ہیں ۔الزامات لگانے میں بھی کافی مہارت رکھتی ہیں ۔
آجکل بھی کچھ یوں ہی صورتحال ہے کہ سنتھیا ڈان نے پیپلزپارٹی کے کئی کارکنان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور کئی رازوں سے بھی پردہ اُٹھایا ۔

اصل بات تب شروع ہوئی جب عظمیٰ خان کیس کے حوالے سے سنتھیا ڈان نے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی مرحوم قائد بےنظیر بھٹو پر یہ سنگین الزام لگا دیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو بھی اپنے گارڈز سے خواتین کا ریپ کروایا کرتی تھیں ۔سنتھیا ڈان نے یہ بھی کہا کہ یہ بات پیپلزپارٹی کے کئی رہنما انہیں بتا چکے ہیں ۔اِس بیان کے بعد پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں کی طرف سے مزاحمتی بیانات بھی سامنے آئے اور ایسے کسی واقعے کی تردید بھی کی گئی اور پیپلزپارٹی نے سنتھیا ڈان کو بیرونی ایجنٹ کہا اور آئی ایس آئی سے اِس کی تحقیقات کرنے کی بھی درخواست کر ڈالی۔

اِسکے بعد سنتھیا ڈان نے اپنی توپوں کا مکمل رُخ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب موڑ دیا ۔اُس نے پیپلزپارٹی کے سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک پر  یہ سنگین الزام لگا دیا کہ 2011 میں وزارت کے دوران انہوں نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا ۔
سنتھیا ڈان کے یہ الزامات ابھی تھمے نہیں تھے کہ انھوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین پر بھی یہ الزام لگایاکہ یہ دونوں دست درازی میں بھی ملوث ہیں ۔

اور انہوں نے دست درازی تب کی جب وہ ایوانِ صدر میں مقیم تھے ۔۔
سنتھیا ڈان نے اپنے ذاتی ٹویٹر اکاؤنٹ سے سندھ وزیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کی کچھ نازیبا تصاویر بھی شیئر کیں۔اور یہ بھی کہا کہ اگلی باری مسلم لیگ ن کی ہے۔
بیگم نوازش علی کے نام سے پاکستان کے کامیاب ترین پروگرام کی میزبانی کرنے والے علی سلیم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سنتھیا ڈان اُن کی قریبی دوست ہیں اور وہ سنتھیا ڈان سے کئی بار ملاقات بھی کر چکے ہیں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سنتھیا ڈان نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اِن میں دلچسپی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ اِن سے ہم بستری کی خواہش رکھتے ہیں لیکن سنتھیا ڈان نے رحمان ملک کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں کہا۔

علی سلیم کے اِن بیانات کے حوالے سے سنتھیا ڈان نے ابھی کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی۔
اِن سب باتوں نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ایسے سنگین الزامات پاکستان کے بہت سے سیاستدانوں پر اُس، وقت لگانا جب کرونا اپنے جوبن پر ہے اور پاکستان کی عوام کا نہ نظر آنے والے دشمن سے سامنا ہے اور پاکستان کی عوام بڑی ہمت اور بہادری سے اِس قدرتی آفت کا مقابلہ کر رہی ہے ۔

حکومت کی خامیاں یا ناکامیاں اپنی جگہ لیکن ایسے حالات میں سندھ حکومت پر ایسے الزامات لگانا اور پی ٹی آئی کی طرف سے سنتھیا ڈان کے اِن بیانات کا دفاع کرنا معاملے کو مشکوک بنا رہا ہے ۔اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ بیانات سنتھیا نے خود دئے ہیں یا کہیں سے دلوائے گئے ہیں کیونکہ ماضی میں پاکستان میں ایسی خواتین کو سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے یہ بھی اِس سلسلے کی ایک کڑی بھی ہو سکتی ہے ۔

اِس واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیں ۔کیونکہ ایک غیر ملکی خاتون پاکستان کے سابق وزیراعظم سے لے کر سابق وزیراعلیٰ پر ایسے بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر رہی ہے ۔اور پاکستان میں ایک طبقہ سینہ تان کر اِن کا دفاع کر رہا ہے اور اِس سارے معاملے کو عائشہ گلالئی اور ریحام خان کے معاملات کے ساتھ جوڑ رہا ہے حالانکہ یہ الگ الگ معاملات ہیں ۔

ایک غیر ملکی خاتون اتنی ہمت اور دلیری کے ساتھ پاکستان کے سیاستدانوں کو دنیا بھر میں بدنام کر رہی ہے حالانکہ اِن الزام کے سچا ہونے کے کہیں سے کوئی اشارے نہیں مل رہے کیونکہ ابھی تک یہ سب زبانی کلامی ہی باتیں ہیں جو کہی گئی ہیں یا کہلوائی گئیں ہیں ۔یہ سب سندھ حکومت کے اور پیپلزپارٹی کے خلاف اُس وقت ہوا ہے جب وفاق اور سندھ حکومت (بشمول پاکستان پیپلزپارٹی) کے درمیان کافی گرما گرمی پائی جاتی ہے ۔

اور سندھ میں گورنر راج لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ۔اِس لئے اِس واقعے کی ضرور تحقیقات ہونی چاہیں ۔پاکستان کی معزز عدلیہ کو اِس کا ضرور نوٹس لینا چاہئے.کیونکہ سنتھیا ڈان کے نامعلوم روابط تو سب کو معلوم ہی ہیں لیکن اب سنتھیا کو ایسے الزامات لگا کر بھاگنے نہ دیا جائے بلکہ مکمل تحقیقات کے بعد اگر رحمان ملک پر زناباالجبر ثابت ہو تو اِن کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے ورنہ تہمت لگانے پر سنتھیا ڈان کو ایسے سنگین الزامات کے جرم میں کوڑے لگائے جائیں تاکہ کبھی دوبارہ کوئی ایسے الزامات لگانے کی جرآت نہ کر سکے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :