"انسانیت بھی شرما گئی"

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

یہ کہنا بلکل غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کا معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہو چکا ہے ۔اِس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جب اسلامی معاشرے میں اسلامی اقدار سے ہٹ کر چلا جائے تو ایسے واقعات معمول بن جاتے ہیں جس سے انسانیت بھی شرما جائے ۔ابھی گزرے کل کی بات ہے جب لاہور میں موٹروے پر ایسا واقعہ پیش آیا جن نے پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیے ۔

موٹروے پر ایک خاتون اپنے معصوم بچوں کے ساتھ سفر پر نکلی تو پٹرول ختم ہو جانے کی وجہ سے گاڑی روکنا پڑی ۔وہیں کچھ انسان کی شکل میں درندوں نے بچوں کے سامنے اُن کی ماں کا ریپ کر ڈالا اور وہ درندے موقعے سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو گئے ۔یہ واقعہ جب میڈیا پر رپورٹ ہوا تو عوام میں کافی غم و غصہ پایا گیا کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا اِس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جس میں زیادہ تر معصوم بچوں اور خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

کافی دفعہ ملزمان قانون کی گرفت میں ہی نہیں آتے اور متاثرہ افراد قانون کا دروازہ کھکھٹاتے رہ جاتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔
ہمارا انصاف کا نظام ہمیشہ سے ظالموں کے سامنے بےبس رہا ہے کچھ عرصہ قبل ساہیوال میں اندوہناک سانحہ پیش آیا جس میں بچوں کے سامنے اُن کے والدین کو شہید کیا گیا لیکن جن پولیس اہلکاروں نے اُن کو گولیاں ماریں اُن کی نشاندہی ہونے کے باوجود اُن معصوم بچوں کو انصاف نہیں مل سکا تو ریاست مدینہ کے نعرے لگانے والے حکمرانوں سے یہ سب ہونے کے بعد بھی انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

جب ننھی پری زینب کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔کئی ماہ تک لواحقین انصاف ملنے کی آس لیے پھرتے رہے لیکن اُن کی توقعات کے مطابق اُن کو انصاف نہ مل سکا ۔آج پھر اِس واقعے کے بعد شور مچا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بنائی گئی خاتون کو انصاف مہیا کیا جائے ۔اگر اُس وقت زینت واقعے میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہچایا ہوتا ،اگر اُس وقت ساہیوال واقعے میں ملوث افراد کو نشانِ عبرت بنایا ہوتا تو آج اِس طرح کے واقعات دوبارہ رونما کبھی نہ ہوتے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے واقعات کے کچھ دنوں تک تو خوب شور مچاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد ایسے واقعات دوبارہ رونما ہو جاتے ہیں۔

ایسا اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ معاشرے میں چھپی کالی بھیڑوں کو ہم سزا دینے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ایسے افراد اُن بااثر افراد کی طاقت کا ذریعہ ہوتے ہیں جو اپنے چند مفادات کی خاطر اِن کا استعمال کرتے ہیں جس بِنا پر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔
لاہور موٹروے سانحے کے بعد لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے انتہائی غیر مناسب رویہ اختیار کیا جس میں بجائے وہ ملزمان کو پکڑنے اور اُن کے اِس مجرمانہ فعل پر جلد از جلد ایکشن لینے کے، وہ متاثرہ خاتون سے ہی گلے کرتے نظر آئے کہ وہ رات کو اِس وقت اکیلی کیوں نکلیں، اُنھوں نے گاڑی میں پٹرول کیوں نہیں ڈلوایا تھا ۔

یقیناً ایسے بیانات سے ہی مجرمان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔جب تحفظ فراہم کرنے والے ہی اِن غیر مناسب بیانات پر اُتر آئیں تو ایسے واقعات کی روک تھام میں ضرور مشکلات آئینگی ۔خاتون اس غلط فہمی میں رات کو نکل آئی کہ ریاست مدینہ قائم ہو چکی ہے لیکن یہ تو حقیقت بھی ہے کہ یہ ریاستِ مدینہ صرف بیانات کی حد تک ہی موجود ہے ۔حقیقت توہے کہ ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔

وجوہات جو بھی ہوں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام میں حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اِس حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ رواں سال ابتدائی 6 ماہ کے دوران یومیہ کے حساب سے8 سے زائد بچوں سے جنسی زیادتی ہوئی اور یہ صورتحال بہت خطرناک ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں ایسے واقعات کی روک تھام کرنا آسان ہے لیکن بدقسمتی سے قانون کی طاقت اِن طاقتور لوگوں کے سامنے بےبس ہی رہی ہے جس کی بدولت ایسے واقعات کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھنے لگے ہیں ۔

کچھ عرصہ قبل ایبٹ آبادمیں3سالہ بچی سےزیادتی ہوئی، کراچی میں قبروں کو کھود کر خواتین کی لاشوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا درندہ نما شخص منظرِ عام پر آیا۔اِس طرح کے کئی ایسے واقعات بھی ہیں جو میڈیا پر رپورٹ بھی نہیں ہوئے اور یہ تمام واقعات اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی ہوئے جہاں نعرے لگانے والے تو بہت ہیں لیکن اِن نعروں پر عمل پیرا ہونے کو کوئی تیار نہیں اور اِن واقعات کے سامنے ہمیشہ قانون کی طاقت بےبس نظر آئی ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :